بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مارکیٹ بنانے کے لیے لوگوں سے اس شرط پر قرضہ لینا کہ مارکیٹ بننے کے بعد آپ کو دکان کرایہ پر دی جائے گی


سوال

میں اپنی زمین میں مارکیٹ بنانا چاہتا ہوں، مگر میرے پاس سرمایہ نہیں ہے تو میں لوگوں سے کہہ دیتا ہوں کہ تم مجھے سرمایہ دو اس کے بدلے میں، مارکیٹ بننے کے بعد ،تمہیں مارکیٹ میں کرایہ پر دوکان دوں گا اور ماہانہ کرایہ میں نصف یا ثلث نقد اور باقی اس سرمایہ کے روپے میں سے کٹتا جاۓ گا ، کئی سال میں آپ کا سرمایہ کرایہ میں ختم ہوجاۓ گا تو کیا اس طرح لوگوں سے ایڈوانس روپے لینا اور مارکیٹ بنانا جائز ہے؟ اگر ناجائز ہو تو جائز صورت بتادیں ؟

جواب

مارکیٹ بنانے کے لیے لوگوں سے قرضہ لینا اور مارکیٹ بننے کے بعد لوگوں کو اس مارکیٹ میں دکان کرایہ پر دے کر ماہانہ مکمل کرایہ یا اس کا کوئی خاص حصہ (مثلاً نصف یا ثلث )  قرض میں سے محسوب کرنا، جائز ہے بشرطیکہ دکان کا کرایہ قرض خواہوں کے لیے اجرتِ مثل (جتنا کرایہ عرف میں اس طرح کی مارکیٹ میں عام کرایہ داروں سے لیا جاتاہو)سے کم مقرر نہ کیا جائے، اگر قرض خواہوں کو دکان کرایہ پر دے کر ان دکانوں کا کرایہ اجرتِ مثل سے کم رکھا جائے گا تو یہ قرض کی بنیاد پر دیے جانے والے نفع کے زمرے میں آئے گا جو کہ سود ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 63):

’’مطلب أسكن المقرض في داره يجب أجر المثل.

وفي الخانية: رجل استقرض دراهم وأسكن المقرض في داره، قالوا: يجب أجر المثل على المقرض؛ لأن المستقرض إنما أسكنه في داره عوضا عن منفعة القرض لا مجانا وكذا لو أخذ المقرض من المستقرض حمارا ليستعمله  إلى أن يرد عليه الدراهم اهـ وهذه كثيرة الوقوع‘‘.فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200354

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں