بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکے کے عقیقہ میں ایک بکرا کرنے کی حیثیت ہو تو کیا کرے؟


سوال

بیٹے کی پیدائش پر اگر 7 دن میں عقیقہ نہ ہو سکے تو کیا بعد میں کیا جا سکتا ہے؟ اور 1بکرے  کی ہی استطاعت ہو تو کیا 1 کا ہی ہو سکتاہے؟

جواب

صاحبِ استطاعت افراد کے لیے اپنے نومولود بچہ کا عقیقہ کرنا مستحب ہے، جس کا مستحب وقت  پیدائش کا ساتوں روز ہے، اگر ساتویں روز عقیقہ نہ کرسکے تو چودہویں روز کرلے، اور چودہویں روز نہ کیا تو اکیسویں روز کرلے، اور کسی مجبوری کے بغیر اس سے زیادہ تاخیر نہیں کرنی چاہیے، کسی عذر کی وجہ سے اگر تاخیر ہوجائے تو  کوشش کرکے بلوغت سے پہلے پہلے کرلینا چاہیے، تاہم اگر اس وقت بھی حیثیت نہ ہو تو بعد میں جب بھی حیثیت ہو  کرسکتے ہیں، نیز صاحبِ حیثیت فرد کے لیے بیٹے کے عقیقہ میں دو بکرے کرنا مسنون ہے، تاہم اگر دو بکرے کرنے کی استطاعت نہ ہو تو ایک بکرا بطور عقیقہ ذبح کرنا بھی کافی ہے،  اس  لیے کہ بعض احادیث سے ایک بھیڑ عقیقہ میں ذبح کرنا بھی ثابت ہے۔

سنن ترمذی میں ہے:

’’عن سمرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: الغلام مرتهن بعقيقته، يذبح عنه يوم السابع، و يسمي و يحلق رأسه. قال الإمام الترمذي: و العمل علي هذا عند أهل العلم، يستحبون أن يذبح عن الغلام يوم السابع، فإن لم يتهيأ يوم السابع فيوم الرابع عشر، فإن لم يتهيأ عق عنه يوم إحدی و عشرين‘‘. (أبواب الأضاحي، باب ما جاء في العقيقة، ١/ ٢٧٨، ط: سعيد)

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية  میں ہے:

"و وقتها بعد تمام الولادة إلى البلوغ، فلايجزئ قبلها، وذبحها في اليوم السابع يسن، والأولى فعلها صدر النهار عند طلوع الشمس بعد وقت الكراهة؛ للتبرك بالبكور". (٢/ ٢١٣)

المستدرك  میں ہے:

" عن عطاء، عن أم كرز، وأبي كرز، قالا: نذرت امرأة من آل عبد الرحمن بن أبي بكر إن ولدت امرأة عبد الرحمن نحرنا جزوراً، فقالت عائشة رضي الله عنها: «لا، بل السنة أفضل عن الغلام شاتان مكافئتان، وعن الجارية شاة تقطع جدولاً، ولايكسر لها عظم فيأكل ويطعم ويتصدق، وليكن ذاك يوم السابع، فإن لم يكن ففي أربعة عشر، فإن لم يكن ففي إحدى وعشرين». هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه". ( المستدرك علی الصحیحین للحاکم ، ٤ ٢٦٦،  رقم الحدیث: 7595، کتاب الذبائح، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

’’يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضةً أو ذهباً، ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعاً على ما في شرح الطحاوي، وهي شاة تصلح للأضحية تذبح للذكر والأنثى سواء فرق لحمها نيئاً أو طبخه بحموضة أو بدونها مع كسر عظمها أو لا، واتخاذ دعوة أو لا، وبه قال مالك. وسنها الشافعي وأحمد سنةً مؤكدةً شاتان عن الغلام، وشاةً عن الجارية، غرر الأفكار ملخصاً، والله تعالى أعلم‘‘.( ٦ / ٣٣٦،   کتاب الاضحیۃ، ط: سعید)

 

اعلاء السنن میں ہے:

’’أنها إن لم تذبح في السابع ذبحت في الرابع عشر، وإلا ففي الحادي والعشرین، ثم هکذا في الأسابیع‘‘. (17/117، باب العقیقة، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامیة)

فيض الباري شرح صحيح البخاري (5/ 88):
"ثم إن الترمذي أجاز بها إلى يوم إحدى وعشرين. قلتُ: بل يجوز إلى أن يموت، لما رأيت في بعض الروايات أنَّ النبيَّ صلى الله عليه وسلّم عقّ عن نفسه بنفسه". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200498

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں