بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکی والوں کی طرف سے شادی کی دعوت کے کھانے میں شریک ہونے کا حکم


سوال

کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ شادی میں لڑکی والوں کی طرف سےکھانے کی دعوت میں شریک ہونا درست نہیں، جس نے بھی کھایا گناہ گار ہوگا، ولیمہ صرف لڑکے والوں کی طرف سے درست ہوگا۔شریعت کا کیا حکم ہے؟

جواب

نکاح کے موقع پر لڑکی والوں کی طرف سے کھانے کا انتظام کرنا  ولیمہ کی طرح سنت نہیں  ہے، ہاں اگر کوئی نمود ونمائش سے بچتے ہوئے،  کسی قسم کے خاندانی یا اخلاقی دباؤ کے بغیر اپنی خوشی ورضا  سے اپنے اعزہ اور مہمانوں کوکھانا کھلائے تو  یہ مہمانوں کا اکرام ہے، اور اس طرح کی دعوت کا کھانا کھانا بارات والوں کے لیے جائز ہے، اور اگر  لڑکی والے   خوشی سے نہ کھلائیں تو زبردستی کرکے کھانا کھانا جائز نہیں ہوگا۔

 

صحیح  مسلم میں ہے:

" عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا دعي أحدكم إلى طعام، فليجب، فإن شاء طعم، وإن شاء ترك»".(2/ 1054، کتاب الحج، باب  زواج زینب بنت جحش، برقم: 1430، ط:دار احیاء التراث)

      وفیہ أیضاً:

"عن نافع، قال: سمعت عبد الله بن عمر، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أجيبوا هذه الدعوة إذا دعيتم لها»، قال: «وكان عبد الله بن عمر يأتي الدعوة في العرس، وغير العرس، ويأتيها وهو صائم»".(2/ 1053، کتاب الحج، باب  زواج زینب بنت جحش، برقم: 1430، ط:دار احیاء التراث)

صحیح بخاری میں ہے:

"وقال أنس: «إذا دخلت على مسلم لايتهم، فكل من طعامه واشرب من شرابه»". (7/ 82،  کتاب الأطعمة، باب  الرجل يدعى إلى طعام ، ط:دارطوق النجاة)

سنن أبی داود میں ہے:

"عن أبي شريح الكعبي، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه، جائزته يومه وليلته، الضيافة ثلاثة أيام وما بعد ذلك فهو صدقة، ولايحل له أن يثوي عنده حتى يحرجه»". (3/ 342، کتاب الأطعمة، باب ما جاء في الضیافة، رقم الحدیث:3738، ط: المكتبة العصرية، صيدا - بيروت)

     شرح المجلۃ میں ہے:

" لایجوز لأحد  أن یاخذ  مال أحد  بلا سبب شرعي". (1/264،  مادة: 97، ط: رشیدیة)

مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب تحریر فرماتے ہیں :

"لڑکی والوں کی طرف سے براتیوں کو یا برادری کو کھانا دینا لازم یا مسنون اور مستحب نہیں ہے ، اگر  بغیرالتزام کے وہ اپنی مرضی سے کھانا دے دیں تو مباح ہے، نہ دیں تو کوئی الزام نہیں" ۔ (کفایت المفتی، 7/471، باب العرس والولیمہ، ط: فاروقیہ)

فتاوی  محمودیہ میں ہے: 

"جو لوگ لڑکی والے کے مکان پر مہمان آتے ہیں اور ان کا مقصود شادی میں شرکت کرنا ہے اور ان کو بلایا بھی گیا ہے تو آخر وہ کھانا کہاں جاکر  کھائیں گے!اور اپنے مہمان کو کھلانا  تو شریعت کا حکم ہے، اور حضرت نبی اکرم ﷺ نے تاکید فرمائی ہے"۔ (12/142، باب العروس والولیمہ، ط:فاروقیہ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201223

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں