بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لوہے اور دیگر دھاتوں کی گھڑی پہننے کا حکم


سوال

آج کل لوگ لوہے اسٹیل جیسی دھاتوں والی گھڑیاں ہاتھوں میں پہنتے ہیں، جب کہ سنا ہے کہ ہاتوں میں لوہا پہننا جائز نہیں ہے، نہ عورتوں کو اور نہ ہی مردوں کو،  اور جہاں تک گھڑی کی ضرورت کی بات ہے وہ تو پلاسٹک یا زیادہ سے زیادہ چمڑے کے پٹے والی گھڑی سے پوری ہوسکتی ہے، بلکہ آج کل تو موبائل سے ضرور پوری ہوسکتی ہے، اور میں نے ایک اصول سنا ہے کہ "ضرورت کے بقدر ہی ممنوعہ چیزوں کو استعمال کی گنجائش ہوتی ہے?

جواب

واضح رہے کہ جو حکم لوہے اور دیگر دھاتوں کی چیزیں نہ پہننے سے متعلق مطلقاً وارد ہوا ہے اس کا تعلق انگوٹھی سے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں فقہاءِ  کرام نے مردوں کے لیے صرف چاندی کی انگوٹھی (بشرطیکہ ایک مثقال کے اندر وزن ہو) پہننے کی اجازت دی ہے، اور عورت کے لیے سونے اور چاندی کی انگوٹھی پہننے کی اجازت ہے، اس کے علاوہ دیگر دھاتوں سے بنائی گئی انگوٹھی پہننے کی نہ مرد کو اجازت ہے نہ عورت کو، جہاں تک گھڑی پہننے کا تعلق ہے تو سونے اور چاندی کے علاوہ دیگر تمام دھاتوں سے بنی ہوئی گھڑی کا پہننا اور اس کا استعمال کرنا جائز ہے۔

مفتی محمودحسن گنگوہی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’گھڑی اگرزیورکے طورپرنہ باندھی جائے،بلکہ وقت دیکھنے کے لیے ہو جیساکہ وہ اسی مقصدکے لیے بنائی گئی ہے  توممنوع نہیں، جس طرح لوہے کا خود اورتلوار اورزرہ  پہننااورلگاناممنوع نہیں؛ کیوں کہ وہ زیورنہیں، بلکہ ضرورت ہے‘‘۔

ایک دوسرے مقام پرتحریرفرماتے ہیں :

’’فیتہ گھڑی کی حفاظت کے لیے باندھاجاتاہے،یہ کوئی حلیہ زیورنہیں،اسی طرح چین گھڑی کی حفاظت کے لیے استعمال کی جاتی ہے، یہ بھی زیورنہیں، مروجہ چین جوکہ نہ چاندی کی ہے،نہ سونے کی،گھڑی کی حفاظت کے لیے باندھے ہوئے نمازدرست ہے،جیساکہ فیتہ باندھے ہوئے نمازدرست ہے‘‘۔

البتہ اگر کوئی احتیاطاً پلاسٹک کے پٹے والی گھڑی پہنتا ہے تو اس میں بھی حرج نہیں ہے، لیکن اسے چاہیے کہ چین کے پٹے والی گھڑی پہننے والوں کو غلط نہ سمجھے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 359):

"(ولايتختم) إلا بالفضة؛ لحصول الاستغناء بها، فيحرم (بغيرها، كحجر)، وصحح السرخسي جواز اليشب والعقيق، وعمّم منلا خسرو، (وذهب وحديد وصفر) ورصاص وزجاج وغيرها؛ لما مر".

(قوله: فيحرم بغيرها إلخ)؛ لما روى الطحاوي بإسناده إلى عمران بن حصين وأبي هريرة قال: «نهى رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم عن خاتم الذهب». وروى صاحب السنن بإسناده إلى عبد الله بن بريدة عن أبيه: «أن رجلا جاء إلى النبي صلى الله تعالى عليه وسلم وعليه خاتم من شبه، فقال له: مالي أجد منك ريح الأصنام؟ فطرحه، ثم جاء وعليه خاتم من حديد، فقال: مالي أجد عليك حلية أهل النار؟ فطرحه، فقال: يا رسول الله من أي شيء أتخذه؟ قال: اتخذه من ورق، ولاتتمه مثقالاً». " فعلم أن التختم بالذهب والحديد والصفر حرام، فألحق اليشب بذلك؛ لأنه قد يتخذ منه الأصنام، فأشبه الشبه الذي هو منصوص معلوم بالنص، إتقاني. والشبه محركاً: النحاس الأصفر، قاموس. وفي الجوهرة: والتختم بالحديد والصفر والنحاس والرصاص مكروه للرجل والنساء، (قوله: جواز اليشب) بالباء أو الفاء أو الميم، وفتح أوله وسكون ثانيه وتحريكه خطأ، كما في المغرب، قال القهستاني: وقيل: إنه ليس بحجر، فلا بأس به، وهو الأصح، كما في الخلاصة اهـ". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144107200958

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں