بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لا علمی میں طلاق کے الفاظِ کنایہ استعمال کرنا


سوال

جس آدمی کو  طلاقِ کنایہ کے الفاظ کے بارے میں  پتا بھی نہ ہو   اور وہ کئی دفعہ استعمال بھی کر چکا ہو اور اس کو بعد میں پتا چلے اور وہ توبہ کر لے اور آئندہ نہ استعمال کرے  وہ الفاظ تو  کیا اس کی توبہ قبول ہے؟ اس کا کیا ازالہ ہو سکتا ہے؟

جواب

کنائی الفاظ وہ ہیں جو اصلاً طلاق کے لیے وضع نہ ہوں، بلکہ ان میں طلاق اور غیر طلاق دونوں کا احتمال ہو، ان الفاظِ کنائی سے نیت کے ساتھ طلاق (بائن وغیرہ) واقع ہوتی ہے اور بسا اوقات مذاکرۂ  طلاق، دلالتِ حال، عرف اور الفاظِ کنائی کے صریح بن جانے کی وجہ سے بغیر نیت کے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، طلاق کے باب میں استعمال کیے جانے والے الفاظ کی فہرست طویل ہے، جن میں سے بعض ایسے الفاظ بھی ہیں جن میں نیت کی ضرورت نہیں ہوتی، جیسے لفظ ’’ آزاد ‘‘ اور بعض الفاظ نیت یادلالتِ حال کے محتاج ہوتے ہیں۔

الفاظِ کنایہ میں سے چند الفاظ ملاحظہ ہوں:

"میرا تیرا تعلق ختم"، "تو میری بیوی نہیں"، "میرا تیرا کوئی رشتہ نہیں"، "میاں بیوی والا تعلق ختم کردیا"، "تو جانے تیرا کام جانے"، "اسے لے جاؤ"، "اپنے لیے کوئی اور ڈھونڈ لے"، "دفع ہو جا"، "جا نکل"، "پردہ کرلے" وغیرہ۔

اگر کسی شخص نے ایسے الفاظ لا علمی میں استعمال کیے ہوں تو ان  الفاظ  سے مرتب ہونے والے حکم کو جاننے کے لیے ان الفاظ کا معلوم ہونا ضروری ہے، ان الفاظ کے جانے بغیر جواب دینا ممکن نہیں، کیوں کہ بعض الفاظ ایسے بھی ہیں جن سے نیت کے بغیر طلاق واقع ہو جاتی ہے؛ لہذا جو الفاظ ماضی میں استعمال کیے گئے ہوں وہ الفاظ لکھ کر جواب معلوم کر لیں، اسی کے بعد ازالہ کی صورت ہونے یا نہ ہونے کا علم ہوسکے گا۔

جہاں تک توبہ قبول ہونے کی بات ہے تو حالتِ نزع سے پہلے ہر گناہ سے توبہ قبول ہوتی ہے، اگر کسی نے بیوی کے ساتھ زیادتی کرتے ہوئے طلاق کے الفاظ استعمال کیے ہوں تو توبہ و معافی سے گناہ معاف ہوجائے گا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200347

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں