بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کلمہ طیبہ کا ثبوت


سوال

 کیا کلمۂ طیبہ "لا إِلٰه إلا الله محمد رسول الله"  کا ثبوت کسی صحیح حدیث سے ملتا ہے ؟ تحقیق سے جواب دیں. پورے کلمے کا ثبوت سنداً!

جواب

پہلی بات تو یہ سمجھنی چاہیے کہ ہمارے ہاں رائج چھ  کلمے،  اس نام اور عنوان کے ساتھ بعینہ قرآنِ مجید یا احادیثِ مبارکہ میں یک جا طور پر نہیں ہیں،  نہ ہی کسی نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ کلمات اسی نام اور اسی ترتیب سے بعینہ قرآن مجید یا حدیث شریف میں وارد ہیں، البتہ ان کلموں کی عبارات مختلف نصوص میں موجود ہیں، بعض کلمات بعینہ موجود ہیں اور بعض متفرق طور پر موجود ہیں، نیز ان میں سے بعض کے فضائل بھی منقول ہیں۔

اسلامی عقائد کی تدوین کے مختلف ادوار میں جب غیر عرب لوگوں کو عربی زبان میں اسلامی عقائد  (اللہ تعالیٰ کی توحید و صفات، نیز کفر وشرک سے بے زاری اور استغفار وغیرہ کے کلمات) کی تعلیم دینے کی ضرورت محسوس ہوئی تو اسلام کے بنیادی عقائد کو اہلِ علم نے ایمانِ مفصل، ایمانِ مجمل اور شش کلموں کی صورت میں جمع کردیا، اور ان کلمات میں سے جس کی کوئی فضیلت احادیث میں موجود تھی وہ بھی ساتھ ذکر کردی گئی۔

اس تمہید کے بعد سوال کا جواب یہ ہے کہ پہلا کلمہ جسے کلمہ طیبہ بھی کہا جاتاہے، (نیز دوسرا کلمہ جسے کلمہ شہادت کہا جاتاہے)  یہ اسلام کے بنیادی عقیدے کا اقرار ہے، قرآنِ مجید میں متفرق طور پر اور احادیثِ مبارکہ میں یہ کلمہ یک جا بعینہ بھی، اور متفرق طور پر بھی اور بعض جگہ اس کا معنیٰ ومفہوم مذکور ہے، لہٰذا بجا طور پر کہا جاسکتاہے کہ کلمہ طیبہ صحیح حدیث میں موجود ہے۔  البتہ یہ کہنا کہ ایسی حدیث شریف بتائی جائے جس میں اس کا نام پہلا کلمہ رکھا گیا ہو، یا اس نام سے اس کا ذکر ہوا ہو، یہ مطالبہ درست نہیں ہے، کیوں کہ کلمات کی اس مروجہ ترتیب اور ان کے ناموں کے حوالے سے کسی کا بھی یہ دعویٰ نہیں ہے کہ احادیثِ مبارکہ میں یہ ان ناموں کے ساتھ مذکور ہیں، اصل مقصد عقیدہ ہے۔ 

بہرحال! پہلے کلمہ کے الفاظ صراحۃً احادیث میں وارد ہیں، ذیل میں ان کو درج کیا جاتا ہے، (معنیٰ ومفہوم کو ثابت کرنے والی روایات متعدد ہیں):

المستدرك على الصحيحين للحاكم (2/ 671):
"حدثنا علي بن حمشاذ العدل، إملاء، ثنا هارون بن العباس الهاشمي، ثنا جندل بن والق، ثنا عمرو بن أوس الأنصاري، ثنا سعيد بن أبي عروبة، عن قتادة، عن سعيد بن المسيب، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: «أوحى الله إلى عيسى عليه السلام يا عيسى آمن بمحمد وأمر من أدركه من أمتك أن يؤمنوا به فلولا محمد ما خلقت آدم ولولا محمد ما خلقت الجنة ولا النار ولقد خلقت العرش على الماء فاضطرب فكتبت عليه لا إله إلا الله محمد رسول الله فسكن» هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه ".

اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد امام حاکم رحمہ اللہ نے اس کو صحیح کہا ہے۔

كنز العمال (1/ 55):
"لما خلق الله جنة عدن وهي أول ما خلق الله قال لها: تكلمي! قالت: لا إله إلا الله محمد رسول الله، قد أفلح المؤمنون، قد أفلح من دخل في، وشقي من دخل النار".

كنز العمال (1/ 57):
"مكتوب على العرش لا إله إلا الله محمد رسول الله لاأعذب من قالها".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201204

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں