بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لاؤڈ اسپیکر پر درس قرآن دینا


سوال

کیا آج کل درس دینے کا مروجہ طریقہ کار جائز ہے، جس میں مولانا حضرات لوگوں کو روزانہ کے حساب سے مسجد کے بیرونی لاوڈ سپیکر (جو کہ عام طور پر اذان کے لیے استعمال ہوتا ہے) سے درس قران دیتے ہیں؟  اور ہر مسجد کے مولانا صاحب نے ایک نماز مقرر کی ہوتی ہے، جس کے بعد وہ درس دیتا ہے، محلے کے لوگوں کو کم ازکم دن میں تین مرتبہ وعظ سننے کو ملتا ہے۔ کیا یہ طریقہ کار قرآن اور صحیح احادیث کی روشنی میں جائز ہےیا نہیں؟

جواب

قرآنِ مجید کا درس دینا اور  تلاوت کرنا نیکی کا کام اور ثواب کا ذریعہ ہے،  تاہم اگر مسجد کے بیرونی لاؤڈ اسپیکر کے استعمال سے  لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہو یا محلے میں  مریض ہو ں یا قرآن کی بے حرمتی ہوتی ہو تو بیرونی لاؤڈ اسپیکر  کا استعمال درست نہیں ہوگا، اور اگر اس سے لوگوں کو تکلیف نہ ہوتی ہو اور محلے میں مریض نہ ہوں تو پھر بیرونی لاؤڈ اسپیکر کا استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔

البتہ مسجد کے ائمہ کو چاہیے کہ  وہ وعظ ونصیحت اور تبلیغ کے معاملہ میں اعتدال سے کام لیں،  روزانہ درس دینے کے بجائے  ہفتہ میں ایک مرتبہ یا دو ، تین مرتبہ درس دے لیا کریں؛ تاکہ لوگوں میں نشاط بھی ہو اور لوگ اس سے اکتائیں بھی نہیں۔

حضرت شقیق  رحمہ اللہ  روایت کرتے ہیں: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہر جمعرات کے دن  لوگوں کے سامنے وعظ ونصیحت کیا کرتے تھے، ایک روز ایک شخص نے عرض کیا : اے ابوعبد الرحمن! میری خواہش ہے کہ آپ ہمارے درمیان روزانہ وعظ ونصیحت کیا کریں، تو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : میں اس لیے ایسا نہیں کرتا کہ اس سے تم لوگ تنگ ہوجاؤگے ، میں نصیحت  کرنے کے معاملہ میں تمہاری خبر گیری اس طرح کرتا ہوں، جیسا کہ ہماری نصیحت کے معاملہ میں حضور اقدس ﷺ ہماری خبر گیری کیا کرتے تھے، اورہمارے اکتا جانے کا خیال رکھتے تھے۔(بخاری ومسلم)

'' وعن شقيق قال: كان عبد الله بن مسعود يذكر الناس في كل خميس. فقال له رجل: يا أباعبد الرحمن، لوددت أنك ذكرتنا في كل يوم! قال: ((أما إنه يمنعني من ذلك أني أكره أن أملكم، وإن أتخولكم بالموعظة كما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتخولنا بها مخافة السآمة علينا))''

(أنى أكره) بفتح الهمزة فاعل "يمنعني" أي كراهتي (أن أمِلَّكُم) بضم الهمزة وكسر الميم وتشديد اللام المفتوحة، أي أكره إملالكم يعني إيقاعكم في الملالة والضجر، (وإني) بكسر الهمزة عطف على "إنه" أو حال (أتخولكم) من التخول وهو التعهد وحسن الرعاية. (كما كان) الخ. الكاف للتشبيه، و"ما" مصدرية. (يتخولنا) أي يتعهدنا. والمعنى: كان يراعي الأوقات في تذكيرنا، ويتحرى منها ما كان مظنة القبول، ولا يفعل ذلك في كل يوم لئلا نمل ونسأم. (مخالفة السآمة) بالنصب مفعول له، أي لأجل مخافة السآمة من الموعظة. (علينا) متعلق بالسآمة على تضمين معنى المشقة، أي مخافة المشقة علينا، أو بتقدير الصفة، أي مخافة السآمة الطارئة علينا، أو الحال أي مخافة السآمة حال كونها طارئة علينا، أو بمحذوف أي مخافة السآمة شفقة علينا. وفي الحديث: الاقتصاد في الموعظة لئلا تملها القلوب فيفوت المقصود. واستنبط البخاري منه التعهد والتخول بالعلم''۔ ( مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، (1/ 311)کتا ب العلم، ط: إدارة البحوث العلمیة)

"" قال في (الخلاصة): رجل يكتب الفقه وبجنبه رجل يقرأ القرآن فلا يمكنه استماع القرآن فالإثم على القارىء، وعلى هذا لو قرأ على السطح في الليل جهرًا والناس نيام يأثم''۔ (النهر الفائق (1/ 235) کتاب الصلاة، ط: دارالکتب العلمیة) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200655

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں