بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قسطوں کے کاروبار سے متعلق چند مسائل کا حکم


سوال

 1۔ میرا موٹرسائیکلوں(نئے اور استعمال شدہ ) کا  قسطوں کا کاروبار ہے ۔ ایک دفعہ ایک بندے سے میں نے ایک استعمال شدہ موٹر سائیکل چالیس ہزار میں خریدی، ایک مہینے میں اس کی گاڑی نہیں بکی، ایک مہینے کے بعد وہی بندہ موٹر سائکل خرید نے آیا۔ لیکن میرے پاس وہی گاڑی کھڑی تھی اور وہی گاڑی اس نے ساٹھ ہزار میں قسطوں پر خریدی۔

2۔ ایک بندے کو استعمال شدہ موٹرسائیکل چاہیے تھا، لیکن میرے پا س نہیں تھا،  اس بندے کو اپنے کسی جاننے والے کے پاس موٹرسائیکل پسند تھا، لیکن وہ نقد پر بیچ رہا تھا۔ 25 ہزار میں اس نے فائنل کیا تھا، وہ اس بندے کو میرے پاس لا یا ۔ اور میں نے اس بندے کو 25 ہزار نقد دیے، اور 35 ہزار پر قسطوں پر اس بندے پر فروخت کیا۔

3۔ بعض اوقات کسی بندے کو  بازار سے فریج وغیرہ چاہیے، میں بازار سےخود جاکر ان کے لیے خرید تا ہوں اور اس بندے پر مناسب نفع پر قسطوں پر فروخت کرتاہوں ۔

 4۔ بعض اوقات کسی بندےکو کو ئی کو دوسرا سامان یا بلڈنگ میٹریل چاہیے   تو سٹاک والے سے خرید کر 30٪ منافع لگا کر اس بندے پر قسطوں پر فروخت کرتا ہوں۔

5۔ کسی کاروباری شخص کے لیے اپنی پروڈکٹس پر فکس منافع تعین کرنا، جیسا کہ ہر چیز کی قیمت خرید پر 10٪ منافع لگا کر جیساکہ 100 پر خرید کر 110 پہ فروخت کر نا۔ چاہے نقد پہ ہو یا ادھار پر ، کیا یہ جائز ہے ؟ (ان ساری صورتوں میں اگر کوئی بندہ ایک سال یا کم یا زیادہ تک بھی پیسے لیٹ کرے تو کوئی اضافی رقم وغیرہ وصول نہیں کرتا ہوں ) 

جواب

جواب سے پہلے بطورِ تمہید چند باتیں ملاحظہ ہوں:

1۔ ہر شخص  کے  لیے اپنی مملوکہ  چیز  کو  اصل قیمت میں کمی زیادتی کے ساتھ نقد  اور ادھار دنوں طرح  فروخت کرنے کا اختیار ہوتا ہے، اور جس طرح ادھار پر سامان  فروخت کرنے والا اپنے سامان کی قیمت یک مشت وصول کرسکتا ہے ، اسی  طرح اس کو یہ بھی اختیار ہوتا ہے  کہ وہ اس رقم کو قسط وار وصول کرے،  اسے اصطلاح میں ”بیع بالتقسیط“ یعنی قسطوں پر خریدوفروخت  کہتے ہیں۔

2۔ قسطوں پر خرید وفروخت میں  درج ذیل  شرائط کا لحاظ  اور رعایت کرنا ضروری ہے:

قسط کی رقم متعین ہو، مدت متعین ہو، معاملہ متعین ہو کہ نقد کا معاملہ کیا جارہا ہے یا ادھار،  اور عقد کے وقت مجموعی قیمت مقرر ہو، اور ایک شرط یہ بھی  ہے کہ کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں اس  میں اضافہ (جرمانہ) وصول نہ کیا جائے، اور جلد ادائیگی کی صورت میں قیمت کی کمی عقد میں مشروط نہ ہو۔  اگر بوقتِ عقد یہ شرط ہوگی تو پورا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا، ان شرائط کی رعایت کے ساتھ قسطوں پر خریدوفروخت کرنا جائز ہے۔

3۔ کسی بھی چیز کو اپنی ملکیت میں آنے سے پہلے آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہے، اسی طرح کسی بھی منقولی چیز کو خریدنے کے بعد اس پر قبضہ کرنے پہلے اسے آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔

اب آپ کے سوالات کے جوابات ترتیب وار درج ذیل ہیں:

1۔۔ اگر آپ نے چالیس ہزار میں موٹر سائیکل خرید کر اس پر قبضہ کرلیا تھا، اور چالیس ہزار روپے اس کے مالک کو ادا کردیے تھے، تو  ایک معاملہ ختم ہوگیا۔  اب اگر اس کے بعد (اتفاقاً) اسی شخص کو آپ قسطوں پر 60 ہزار روپے میں وہی موٹر سائیکل فروخت کردیں تو یہ جائز ہے۔اگر قیمت پوری ادانہیں کی تھی تو بیچنا درست نہیں تھا۔

2۔۔ اس صورت میں پہلے آپ موٹر سائیکل کے مالک سے سودا کرکے اس سے موٹر سائیکل خرید لیں اور پھر موٹر سائیکل پر خود یا اپنے وکیل کے ذریعہ قبضہ کرلیں اور اس کے بعد اس پر منافع رکھ کر قسطوں پر ماقبل میں ذکر کردہ شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے فروخت کردیں تو یہ جائز ہے۔

3/4۔۔ فریج وغیرہ پر قبضہ کرنے کے بعد اورماقبل کی شرائط کالحاظ رکھتے ہوئے  آگے نفع پر بیچنا جائز ہے۔

5۔۔  عقد کے وقت خریدنے والے کے سامنے قیمت متعین کردی جائے تو یہ جائز ہے، یعنی یہ مبہم بات نہ ہو کہ یہ چیز جتنے میں میں نے خریدی ہے اس پر دس فیصد منافع کے ساتھ آپ کو فروخت کروں، بلکہ یا قیمتِ خرید بتاکر دس فیصد منافع بتایا جائے یا خود ہی مالک منافع رکھ کر خریدار کو یہی قیمت بتائے تو یہ جائز ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200197

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں