بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض کی واپسی کے وقت زیادہ ادا کرنا


سوال

ایک شخص کسی کو بطورِ قرض رقم دیتا ہے ، رقم پانچ سال بعد واپس ملتی ہے، پانچ سال بعد رقم کی وہ قیمت نہیں رہتی جو پانچ سال قبل تھی۔ قرض دار اس رقم سے کاروبار کرتا رہا اور اپنا سرمایہ بڑھاتا رہا جب کہ قرض خواہ کو جب وہ رقم واپس ملے گی تو اس رقم کی مالیت گھٹ چکی ہوگی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا قرض دار بغیر کسی معاہدہ اور مطالبہ کے قرض خواہ کو رقم واپس کرتے وقت اضافہ کرکے دے سکتا ہے؟ نیز شرعاً   کیا قرض دار کو ایسی کوئی  ترغیب بھی ہے؟

جواب

قرض  کے بارے میں شرعی ضابطہ یہ ہے کہ جتنا قرض لیاجائے اتنی ہی مقدار قرض دار پر واپس کرنالازم ہے، چاہے جتنے عرصے بعد واپسی ہو، قرض میں دی گئی رقم کی مالیت گھٹنے یا بڑھنے کا شریعت نے اعتبار نہیں کیا ہے، چنانچہ شریعت مطہرہ کا مسلمہ اصول ہے کہ’’الدیون تقضیٰ بأمثالها‘‘ یعنی قرضوں کی واپسی ان قرضوں کے مثل (برابر) سے ہی ہوگی، اسی لیے اگر قرض کی واپسی میں اضافہ کی شرط لگائی جائے تو وہ عین سود ہوگا۔ البتہ اگر  کسی پیشگی معاہدہ و شرط کے بغیر قرض دار خود سے قرض کی واپسی کے وقت قرض خواہ کا احسان مانتے ہوئے کچھ زیادہ ادائیگی کردے اور اضافے کے ساتھ ادائیگی کا عرف نہ ہو تو یہ اس کی طرف سے تبرع اور احسان ہوگا اور اس پر اسے اجر و ثواب بھی ملے گا، کیوں کہ حدیث میں بھی اس بات کی ترغیب دی گئی ہے، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا :تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرض کی ادائیگی زیادہ اچھے طریقہ سے کرنے والا ہو۔  لہٰذا جس طرح وقت پر قرضہ ادا کرنا اس میں شامل ہے، اسی طرح  بلا شرط بطور تبرع کچھ بڑھا کر ادا کرنا بھی اچھے طریقہ سے ادا کرنے میں شامل ہے۔ لیکن یہ واضح رہے کہ قرض خواہ صراحۃً یا اشارۃً یا کنایۃً زیادتی کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔

صحيح مسلم (3/ 1224)

'' عن عطاء بن يسار، عن أبي رافع، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم استسلف من رجل بكراً، فقدمت عليه إبل من إبل الصدقة، فأمر أبا رافع أن يقضي الرجل بكره، فرجع إليه أبو رافع، فقال: لم أجد فيها إلا خياراً رباعياً، فقال: «أعطه إياه، إن خيار الناس أحسنهم قضاءً»''۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201091

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں