بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کے گوشت سے کباب بنانا


سوال

اگر کوئی شخص اپنے قربانی کے جانور کے گوشت کے کباب بنوانے کے لیے زید کو دے جب کہ زید کے پاس کئی لوگ کباب بنوانے آتے ہیں ، زید تمام لوگوں سے گوشت وزن کے اعتبار سے وصول کرتا ہے اور وزن سے ہی واپس کرتا ہے اور تمام لوگوں کا گوشت یک جا کر دیتا ہے اور کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کس کو کس کا گوشت ملا۔ تو کیا اس صورت میں اس گوشت کو کھانا حلال ہو گا، جب کہ زید کے پاس مختلف مکتبۂ  فکر کے لوگ کباب بنواتے ہیں؟ 

جواب

کباب بنانے والے کو گوشت دے کر اس سے کباب بنوانے کی چند صورتیں ہیں:

(الف): اگر کباب بنانےوالے نے گوشت دے کر کباب بنانے والوں سے اس بات کی  اجازت نہ لی ہو کہ ہم آپ کے گوشت کا الگ حساب نہیں رکھیں گے، تمام گاہکوں کے گوشت ایک ساتھ اکٹھا جمع کریں گے، جس کی وجہ سے گوشت خلط ہوجائے گا اور کھانا پکنے کے بعد آپ کو آپ کے وزن کے مطابق گوشت واپس کریں گے تو کباب  بنانے کے لیے گوشت دینےسے پہلے اس بات کی تاکیدضروری ہے  کہ وہ آپ کے ہی گوشت سے آپ کے لیے کباب بنائے، ایسی صورت میں کسی اور  شخص کے گوشت سے آپ کے لیے کباب بنانا اس کے لیے جائز نہیں  ہوگا۔

(ب):   اگر گوشت وصول کرنے والوں سے مذکورہ اجازت لی گئی ہے اور کباب بنانے والے مسلمانوں اور غیر مسلموں کا گوشت علیحدہ رکھتے ہیں، خلط نہیں کرتے اور کباب بھی علیحدہ بناتے ہیں تو گوشت دینے والے کے لیے اپنی دی ہوئی مقدار میں کباب لینا جائز ہوگا۔

(ج):     اگر گوشت دینے والے نے اجازت دی ہے، لیکن کباب بنانے والے کے بارے میں یقین ہے کہ وہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کا گوشت خلط کردیتا ہےتو اس سے کباب بنانا درست نہیں۔

(د):      اگر گوشت دینے والے نے اس کی اجازت دی ہے اور کباب بنانے والے کے بارے میں شک ہے کہ وہ مسلمانوں اور غیرمسلموں کے گوشت خلط کرتاہے تو اس شک کا اعتبار نہیں، کباب بنوا سکتے ہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (6 / 347):

"(قوله: ولو أخبر عدل بطهارته إلخ) أقول: ذكر شراح الهداية عن كفاية المنتهى لصاحب الهداية: رجل دخل على قوم يأكلون ويشربون فدعوه إليهم فقال له مسلم عدل: اللحم ذبيحة مجوسي والشراب خالطه خمر فقالوا: لا بل هو حلال، ينظر في حالهم فإن عدولاً أخذ بقولهم وإن متهمين لايتناول شيئًا، ولو فيهم ثقتان أخذ بقولهما أو واحد عمل بأكبر رأيه فإن لا رأي واستوى الحالان عنده فلا بأس أن يأكل ويشرب ويتوضأ، فإن أخبره بأحد الأمرين مملوكان ثقتان أخذ بقولهما لاستواء الحر والعبد في الخبر الديني، وترجح المثنى ولو أخبره بأحدهما عبد ثقة وبالآخر حر تحرى للمعارضة، وإن أخبره بأحدهما حران ثقتان وبالآخر مملوكان ثقتان أخذ بقول الحرين، لأن قولهما حجة في الديانة والحكم جميعا فترجحا وإن أخبره بأحدهما ثلاثة عبيد ثقات وبالآخر مملوكان ثقتان أخذ بقول العبيد، وكذا إذا أخبر بأحدهما رجل وامرأتان وبالآخر رجلان أخذ بالأول.

فالحاصل في جنس هذه المسائل: أن خبر العبد والحر في الأمر الديني على السواء بعد الاستواء في العدالة فيرجح أولا بالعدد ثم بكونه حجة في الأحكام بالجملة ثم بالتحري اهـ ومثله في الذخيرة وغيرها فقد اعتبروا التحري بعد تحقق المعارضة بالتساوي بين الخبرين بلا فرق بين الذبيحة والماء فتأمل (قوله: وتعتبر الغلبة إلخ)

أقول: حاصل ما ذكره في الذخيرة البرهانية أنه في الأواني إن غلب الطاهر تحرى في حالتي الاضطرار والاختيار للشرب والوضوء، وإلا بأن غلب النجس أو تساويا ففي الاختيار: لايتحرى أصلاً وفي الاضطرار: يتحرى للشرب لا الوضوء وفي الذكية والميتة يتحرى في الاضطرار مطلقا، وفي الاختيار وإن غلبت الميتة أو تساويا لايتحرى، وكذا في الثياب يتحرى في الاضطرار مطلقًا وفي الاختيار إن غلب الطاهر وإلا لا اهـ. وحاصله: أنه إن غلب الطاهر تحرى في الحالتين في الكل اعتبارا للغالب، وإلا ففي حالة الاختيار لايتحرى في الكل وفي الاضطرار يتحرى في الكل إلا في الأواني للوضوء إذ له خلف وهو التيمم، بخلاف ستر العورة والأكل والشرب إذ لا خلف له. وسيأتي مثله في مسائل شتى آخر الكتاب، وبه يظهر ما في كلامه من الإيجاز البالغ حد الإلغاز، فلو قال فإن الأغلب طاهرًا تحرى مطلقًا وإلا فلا إلا حالة الضرورة لغير وضوء لكان أخصر وأظهر فتدبر نعم كلامه هنا موافق لما قدمه قبيل كتاب الصلاة تبعا لنور الإيضاحقبيل باب زكاة المال فتأمل".

غمز عيون البصائر (1 / 384):

"اعلم أن الشك على ثلاثة أضرب : شك طرأ على أصل حرام ، وشك طرأ على أصل مباح ، وشك لا يعرف أصله ، فالأول ، مثل : أن يجد شاة مذبوحة في بلد فيها مسلمون ومجوس فلا تحل ، حتى يعلم أنها ذكاة مسلم ؛ لأن أصلها حرام وشككنا في الذكاة المبيحة ، فلو كان الغالب فيها المسلمين جاز الأكل عملا بالغالب المفيد".

فتاوی محمودیہ میں ہے:

’’سوال: اگر کسی شے حلال میں کوئی شے حرام با اعتبارِ امرِ خارجی آپس میں بالکل مخلوط ہوجائے تو اتنی مقدار کے نکالنے کے بعد ما بقی کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اگر حلال ہے تو با کراہت یا بلا کراہت؟ مثلاً دو گلاس شربت میں ایک گلاس شربت چوری یا غصب کا مل گیا تو ایک ایک گلاس شربت نکال دینے کے بعد باقی دو گلاس شربت کے بارے میں کیا حکم ہے؟

الجواب حامدا و مصلیا: حق غیر اگر اپنے حق کے ساتھ مخلوط ہوجائے تو بقدر حق غیر اس سے الگ کرکے مالک کو دے دیا جائے، پھر باقی حلال ہے‘‘۔ ( باب المال الحرام و مصرفہ، ١٨ / ٤٤٠، ط: فاروقیہ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200724

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں