بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآن کی لغوی تعریف


سوال

قرآنِ مجید کی لغوی تعریف کیا کی گئی ہے؟

جواب

 اہلِ لغت نے قرآن کے لغوی معنیٰ میں مختلف اقوال بیان کیے ہیں:

1. قرآن ’’قراءت‘‘ کرنے کے معنیٰ میں ہے؛ کیوں کہ اس کو کثرت سے پڑھا جاتا ہے۔

2. قرآن ’’قرن‘‘ سے ہے بمعنیٰ ملانا اور اس کی آیات ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں؛ اس لیے اس کو قرآن کہتے ہیں۔

3. قرآن جمع کرنے کے معنیٰ میں ہے؛ اس لیے کہ اس میں تمام سورتوں کو جمع کیا گیا ہے۔

معلم التجويد (ص: 19):
"معنى القرآن لغةً:

لفظُ قرآن في اللغةِ، مصدرٌ لقَرَأَ، يَقْرَأُ، قراءةً، وقرآناً كالغُفران من غَفَر، وهو مرادف معنىً للقراءة، ومنه قوله تعالى: [القِيَامَة: 17-18] {إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ * فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ *} ، أي: قراءته، ثم سُمِّي به الكتابُ المقروء، من باب تسمية المفعول بالمصدر.

و (قرأ) الشيءَ (قرءاناً) : جَمَعه وضَمَّه، ومنه سُمِّي القرآنُ؛ لأنه يجمع السورَ ويَضُمُّها. وهو مهموز، فلو حُذف همزه كان ذلك للتخفيف، وإذا دخلته «أل» بعد التسمية فإنما هي إشارة للأصل لا للتعريف به، وهو مشترَكٌ لفظيٌّ يُطلق حقيقةً على الكلِّ أو بعضه، كقولك: (يحرم قراءة القرآن على الجُنب) تقصد حرمة قراءته كلِّه أو بعضِه على السواء. وهو مشتق من قرأ، أو من القُرْء بمعنى الجمع - كما ذُكِر آنفًا -.

أو من القِرى بمعنى الضيافة، واشتقاقه من قرأ هو الأَوْلى. وهو المختار؛ استناداً إلى مورد اللغة، وقوانين الاشتقاق".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200459

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں