بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآن کی آیت کا قصداً انکار کرنا


سوال

ایک عاقل و بالغ مسلمان کے سامنے قرآنِ حکیم کی کسی آیہ مبارکہ کی تلاوت کی جاتی ہے اور وہ کہتاہے کہ (یہ تو سرے سے آیہ ہے ہی نہیں) یا یہ کہ (یہ تو قرآن نہیں ہے) اور یہ کہنے والا کوئی جاہل یا امی بھی نہ ہو،  اور وہ یہ بات جمعِ غفیر کے سامنے کرتاہے اور پھر اپنی بات کو واپس بھی نہیں لیتا،  ایسے شخص کے بارے میں شریعتِ اسلامیہ کا کیا حکم ہے؟

جواب

مناسب تھاکہ آپ سیاق و سباق کی تفصیل کے ساتھ مکمل سوال ارسال کرتے؛ کیوں کہ ایمانیات کے معاملے میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے، اور مذکورہ سوال میں بعض احتمالات کا امکان موجود ہے۔ مثلاً: تلاوت کرنے والے نے ہی آیت سہواً غلط پڑھ دی ہو، یا آیت مبارکہ جن الفاظ میں تلاوت کی گئی ہو سننے والے کو ان الفاظ میں شک ہو اور اس نے کہہ دیا کہ یہ قرآن نہیں ہے، یا کہنے والے کا مطلب یہ ہو کہ قرآن کریم کی اس آیت کا جو معنی اورمطلب لیا جارہاہے وہ ہرگز نہیں ہے، وغیرہ۔ اس لیے قطعی حکم تو تفصیل اور جانبین کی بات سننے کے بعد ہی لگایا جاسکتاہے۔

بہر حال اجمالی جواب یہ ہے کہ قرآنِ کریم کی ہر ہر آیت پر ایمان لانا فرض ہے ، جان بوجھ  کر کسی ایک آیت کا  انکار  کرنے سے انسان ایمان سے خارج ہوجاتا ہے ۔ یعنی اگر معلوم ہو کہ یہ قرآن کی آیت ہے ، اس کے باوجو د اس کا آیت ہونا تسلیم نہ کرے تو  مسلمان نہ رہے گا۔ لہذا اگر واقعۃً مذکورہ شخص کے سامنے قرآنِ کریم کی کوئی آیت بلفظہا تلاوت کی گئی اور اس نے جانتے ہوئے اس کے قرآن ہونے سے انکار کیا (یعنی ایسا کوئی احتمال موجود نہیں تھا جس کی موجودگی میں اسلام سے خارج ہونے کا حکم نہ لگے) تو ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ صدقِ دل سے توبہ واستغفار کے ساتھ  تجدیدِ ایمان کرے، اور اگر شادی شدہ ہے تو تجدیدِ نکاح بھی کرے، اور آئندہ بہت احتیاط سے گفتگو کرے۔

"ویکفر إذا أنکر آیةً من القرآن". ( البحر الرائق : باب أحکام المرتدین : 5/205)

"أنکر آیةً من القرآن کفر". ( شرح الفقه الأکبر لملا علي القاری ص: 167)(وكذا في الفتاوى الهندية،  2/266 رشیدیه) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201828

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں