بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآن کریم کے علاوہ کتب کا کلام اللہ ہونا


سوال

کیاقرآن کریم کی طرح دوسری آسمانی کتابیں بھی کلام اللہ ہیں یاوہ صرف کتاب اللہ ہیں؟

جواب

 اصطلاحی اعتبار سے کلام اللہ درحقیقت وہ کلام نفسی ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفتِ ذاتی ہے قدیم ہے، ذات باری تعالی کے ساتھ قائم ہے۔(شرح عقائد مع النبراس ص۱۴۷ ط دارالکتاب)

اس لیے اصل کلام اللہ کا مصداقِ  حقیقی کلامِ نفسی ہے، البتہ جو الفاظ اس کلامِ نفسی پر دلالت کرتے ہیں ان ا لفاظ کو بھی مجازاً ''کلام اللہ''  کہا جاتا ہے ؛ لہٰذا جتنی بھی آسمانی کتابیں ہیں، قرآن کریم، تورات، زبور، انجیل وغیرہ وہ سب کلام نفسی پر دلالت کرنے کے اعتبار سے کلام اللہ ہیں اور اس اعتبار سے (یعنی کلام نفسی پر دلالت کرنے کی وجہ سے کلام اللہ کہنے میں) قرآن کریم اور دیگر آسمانی کتابوں میں کوئی فرق نہیں ہے، البتہ قرآن کریم اپنی بہت سی خصوصیات کی وجہ سے دوسری آسمانی کتابوں سے ممتاز ہے۔

'' وفي شرح الطحطاویة: والحق أن التوراة والإنجیل والزبور والقرآن من کلام اللہ حقیقةً ۔ وفیہ أیضًا: فإن عبر بالعربیة فہو قرآن وإن عُبر بالعبرانیة فہو توراة فاختلف العبارات لا الکلام''۔ (ص ۱۲۴، ط المملکة) 
جس طرح قرآن کتاب اللہ ہونے کے ساتھ ساتھ کلام اللہ بھی ہے، اسی طرح دیگر آسمانی کتابیں کتاب اللہ بھی ہیں کلام اللہ بھی ہیں، قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہودیوں کی کتاب اللہ میں تحریف کا ذکر یوں فرمایاہے:

﴿ اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ يُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَقَدْكَانَ فَرِيْق مِّنْهُمْ يَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ يُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْ بَعْدِ مَاعَقَلُوْهُ وَهُمْ يَعْلَمُوْنَ ﴾ (البقرة:75)

ترجمہ: ' کیا تم (مسلمان) امید رکھتے ہو کہ یہ (یہود) ایمان لے آئیں گے تم (یعنی تمہارے دین) پر! حال آں کہ ان میں ایک فریق (گروہ) اللہ کا کلام سنتاتھا پھر اسے سمجھنے کے بعد اس میں تحریف کرتاتھا باوجود یہ کہ وہ جانتے تھے'۔

مذکورہ آیت میں تورات کو کلام اللہ کہاگیا ہے، لہٰذا دیگر آسمانی کتابوں کو بھی کلام اللہ کہنا درست ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200314

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں