بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآنِ کریم کی تلاوت کا مسنون طریقہ


سوال

 قرآنِ کریم کی تلاوت کا مسنون طریقہ کیا ہے؟ عام عرب علماء جس طرح تلاوت فرماتے ہیں وہ طریقہ مسنون ہے یا اہلِ مصرجس طرح تلاوت فرماتے ہیں وہ طریقہ مسنون ہے؟ مسنون طریقہ کی وضاحت فرمائیے اور اس کے علاوہ کے طریقے کا کیا حکم ہے ؟

جواب

قرآنِ مجید  کو  اس کی فصیح زبان میں  قواعدِ تجوید کی رعایت رکھتے ہوئے پڑھنا ضروری ہے، بے قاعدہ پڑھنے والا گناہ گار ہوگا، لہٰذا مخارج وصفات کی رعایت رکھتے ہوئے صاف تلفظ میں ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرے، خواہ ترتیل سے (خوب ٹھہر ٹھہر کے) پڑھے یا حدر کے ساتھ (قدرے روانی سے پڑھے)۔ باقی لہجے وغیرہ کے حوالے قرآنِ مجید کی تلاوت کا خاص طریقہ یا طرز نہیں ہے،  حدیث شریف میں ترنم وفنِ نغمات کے تکلفات سے اجتناب کرتے ہوئے اہلِ عرب کے (بے تکلف) طرز پر  قرآنِ کریم پڑھنے کی ترغیب ہے، اب اختیار ہے کہ عرب کے علماء کا لہجہ اختیار کیا جائے یا مصری لہجے میں تلاوت کی جائے، البتہ بتکلف نقل کرنے، اور  فنِ نغمات کی باریکیوں اور دکھلاوے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

قرآنِ کریم کی تلاوت انتہائی   ادب کے ساتھ کرنی چاہیے، علماء نے اس کی تلاوت کے آداب بیان فرمائے ہیں، آداب میں  سے ایک ادب یہ ہے کہ مسواک اور وضو  کرنے کے بعد کسی جگہ یک سوئی کے ساتھ  نہایت ادب، سکون و تواضع کے ساتھ قبلہ رخ بیٹھے، چارزانو ہو کر اور ٹیک لگا کر نہ بیٹھے، قرآن کی عظمت دل میں  رکھے اور یہ تصور کرے کہ یہ اس ذات کا کلام ہے جو تمام بادشاہوں  کا بادشاہ ہے، پھر نہایت خشو ع و خضوع کے ساتھ تلاوت کر ے ،اگر معنی سمجھتا ہے تو تدبرو تفکر کے ساتھ آیاتِ رحمت و مغفرت پر رحمت اور مغفرت کی دعا مانگے اور عذاب اور وعیدوں  کی آیات پر ﷲ کے عذاب سے پناہ مانگے، اور آیاتِ تقدیس و تنزیہ پر سبحان ﷲ کہے  اور بوقتِ تلاوت رونے کی سعی و کوشش کرے، اگر رونا نہ آئے تو  بہ تکلف روئے اور رونے والوں  جیسی صورت بنائے۔
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (4 / 1505):

"وعن حذيفة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (اقرءوا القرآن بلحون العرب وأصواتها) عطف تفسيري، أي: بلا تكلف النغمات من المدات والسكنات في الحركات والسكنات بحكم الطبيعة الساذجة عن التكلفات (وإياكم ولحون أهل العشق): أي: أصحاب الفسق (ولحون أهل الكتابين)، أي: أرباب الكفر من اليهود والنصارى فإن من تشبه بقوم فهو منهم، قال الطيبي: اللحون جمع لحن وهو التطريب وترجيع الصوت، قال صاحب جامع الأصول: ويشبه أن يكون ما يفعله القراء في زماننا بين يدي الوعاظ من اللحون العجمية في القرآن ما نهى عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم (وسيجيء) : أي سيأتي كما في نسخة (بعدي قوم يرجعون) بالتشديد، أي يرددون (بالقرآن) : أي يحرفونه (ترجيع الغناء) بالكسر والمد بمعنى النغمة (والنوح) بفتح النون من النياحة، والمراد ترديدا مخرجا لها عن موضعها إذا لم يأت تلحينهم على أصول النغمات إلا بذلك، قال الطيبي: الترجيع في القرآن ترديد الحروف كقراءة النصارى (لا يجاوز) : أي قراءتهم (حناجرهم) : أي طوقهم، وهو كناية عن عدم القبول والرد عن مقام الوصول، والتجاوز يحتمل الصعود والحدور، قال الطيبي: أي لايصعد عنها إلى السماء، ولا يقبله الله منهم، ولا يتحدر عنها إلى قلوبهم ليدبروا آياته ويعملوا بمقتضاه (مفتونة) بالنصب على الحالية، ويرفع على أنه صفة أخرى لقوم، واقتصر عليه الطيبي: أي مبتلى بحب الدنيا وتحسين الناس لهم (قلوبهم) بالرفع على الفاعلية، وعطف عليه قوله (وقلوب الذين يعجبهم شأنهم) بالهمز ويعدل: أي يستحسنون قراءتهم، ويستمعون تلاوتهم (رواه البيهقي في شعب الإيمان، ورزين في كتابه) وكذا الطبراني". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200022

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں