بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآن کریم سے بالوں کا نکلنا


سوال

آج کل ایک افواہ پھیل رہی  ہے، لوگ کہہ رہے ہیں کہ قرآن کے اندر سے ہمیں  بال ملے ہیں اور یہ بال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں. راہ نمائی فرما دیں کیا اس میں کوئی حقیقت ہے؟ کیا ایسی خبریں پھیلانی چاہییں؟

جواب

قرآنِ کریم سے بالوں کے نکلنے کا نظریہ رکھنا یا ان بالوں سے متعلق کوئی خاص عقیدت دل میں بٹھالینا اور انہیں بلاتحقیق یا صرف خواب کی بنیاد پر نبی کریم ﷺ کی جانب منسوب کردینا بہت بڑی جسارت ہے، یہ نظریہ  شرعی اعتبار سے درست نہیں ہے۔

اگر کسی بال کے متعلق سند اور تحقیق کے ساتھ ثابت ہوجائے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا موئے مبارک ہے، تو بلاشبہ وہ بال مبارک دنیا و مافیہا سے بدرجہا بہتر ہے، لیکن سند اور تحقیق کے بغیر کسی بال کے متعلق یہ کہنا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا بال ہے، ہرگز درست نہیں ہے۔ بسا اوقات تلاوت کے دوران پڑھنے والے کے بال قرآنِ کریم کے نسخے میں ٹوٹ کر گر جاتے ہیں، اور کبھی ادھر ادھر سے اُڑ کر اوراق میں پھنس جاتے ہیں، اور بعض لوگ نادانی میں داڑھی کے بالوں کا احترام ہی یہ سمجھتے ہیں کہ داڑھی کا بال ٹوٹ جائے تو اسے قرآنِ مجید یا کسی دینی کتاب میں رکھ دیا جائے (گو یہ طریقہ شرعاً درست نہیں ہے)،  یوں بھی بہت سے لوگ  قصداً  مصحف میں داڑھی  کے بال رکھ دیتے ہیں۔

اکابر کی تحریرات سے معلوم یہ ہوتاہے کہ مختلف ادوار میں اس طرح کی چیزیں مسلمانوں کے درمیان پھیلتی رہی ہیں، جب کہ شریعت  میں ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے؛ اس لیے ہر مسلمان کو  اس سے بچنا چاہیے اور  ایسی خبریں پھیلانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

ذیل میں اسی مسئلہ سے متعلق فتاویٰ رحیمیہ سے ایک سوال اور جواب نقل کیاجاتاہے، جو کئی سال قبل شائع ہوچکا ہے، اس میں شافی کلام موجود ہے، ملاحظہ فرمایئے:

"قرآن مجید میں سے بالوں کا نکلنا"

(سوال۱۲)

کئی دنوں سے مسلمانوں میں قرآنِ مجید میں سے بال نکلنے کی خوب بحث چلتی ہے، بعضوں کا خیال ہے کہ آں حضرت ﷺ کے بال مبارک ہیں،  اس  لیے وہ لوگ اس کو عطر میں رکھتے ہیں، اس پر درود خوانی ہوتی ہے، اس کی زیارت کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے، بعض کہتے ہیں کہ یہ کسی بزرگ کی کرامت ہے، لہذا اس کی تعظیم ضروری ہے، مذکورہ امر میں تشریح کریں۔ ان بالوں کا کیا کیا جائے وہ بھی بتلائیں؟

(الجواب)

کوئی جگہ بالوں سے خالی نہیں ہے، سر کے، بھنوؤں کے، مونچھ کے داڑھی اور بدن کے ہزاروں لاکھوں بالوں میں سے نہ معلوم روز اور کتنے بال گرتے، ٹوٹتے منڈوائے اور کتروائے جاتے ہیں وہ ہوا میں اڑ کر ادھر ادھر گھس جاتے ہیں! قرآن شریف   برسوں سے پڑھے جاتے ہیں اور گھنٹوں کھلے رہتے ہیں ان میں گھر میں گرے ہوئے بال ہوا سے اڑ کر اور پڑھنے والے کے سر کے بال کھجلانے سے ٹوٹ کر گرتے ہیں او ربرسوں اور اق کی تہہ میں دبے رہتے ہیں،  پس اگرتلاش کرنے کے بعد کوئی بال مل جائے تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے!  بلکہ استعمال شدہ قرآنوں میں بال نہ نکلنا حیرت ناک ہے۔

قرآنِ مجید میں سے  نکلے  ہوئے بالوں کو پیغمبر ﷺکے مبارک بال سمجھ لینا، ان پر درود خوانی کرنا، ا ن کی زیارت کرنا، کروانا ایمان کھونے جیسی حرکت ہے اور اسے کرامت سمجھنا بھی جہالت ہے۔

ہر حیرت کی بات کرامت نہیں ہوتی، بلکہ استدراج اورشیطانی حرکت بھی ہوسکتی ہے، حضرت پیرانِ پیر ؒ فرماتے ہیں کہ’’ایک دن سیرو سیاحت کرتے ہوے میرا ایک ایسے جنگل میں گزر ہوا جہاں پانی نہیں تھا، چند دنوں تک وہیں ٹھہرنا پڑا، پانی نہ ملنے کی وجہ سے سخت پیاس لگی، حق سبحانہ تعالیٰ نے بادل کا سایہ میری اوپر کر دیا اور اس باد ل سے چند قطرے ٹپکے جس سے مجھ کو کچھ تھوڑی بہت تسکین ہوئی، اس کے بعد ان بادلوں سے ایک روشنی نکلی جس نے آسمان کے تمام کناروں کو گھیر لیا، اور ا س روشنی میں سے ایک عجیب و غریب صورت نمودار ہوئی جو مجھ سے مخاطب ہوکر کہنے لگی کہ اے عبدالقادر!  میں تیرا پروردگار ہوں، تجھ پر تمام حرام چیزوں کو حلال کرتا ہوں ( اس لیے) جو چاہو کرو (کوئی باز پرس نہ ہوگی ) میں نے کہا: "أعوذ باﷲ من الشیطن الرجیم" اے شیطان ملعون! راندہ درگاہ دور ہوجا اور بھاگ یہاں سے یہ کیا بات ہے؟ اس کے بعد ہی فوراً وہ روشنی تاریکی سے بدل گئی اور اندھیرا چھا گیا،  وہ صورت غائب ہوگئی اور آواز  آئی اے عبدالقادر !تم نے اپنے علم وفہم کی وجہ سے (جو اَحکامِ الٰہی سے حاصل  کیے ہیں) اور اپنے مرتبہ کے ذریعہ مجھ سے نجات پائی ہے، (ورنہ) میں اس جگہ ستر  70 بزرگوں اورصوفیوں کو گم راہ کر چکا ہوں، ایک بھی سیدھے راستے پر قائم نہ رہ سکا‘‘۔ (البلاغ المبین ص 34  تصنیف حضرت شاہ ولی ﷲ محدث دہلویؒ)

اس سے معلوم ہوا کہ ہر ایک تعجب خیز چیز کو کرامت سمجھ لینا یہ گم راہی کی علامت ہے، دجال کے کرشمے بڑے تعجب انگیز ہوں گے، مردوں کو زندہ کرنے کا کرشمہ دکھائے گا، اس کے ساتھ ا س کی جنت اور دوزخ بھی ہوگی، جو اس کو مانے گا اس کو وہ جنت میں اور نہ ماننے والے کو دوزخ میں ڈالے گا، سخت قحط سالی کے زمانے میں کسی کے پاس غلہ نہ ہوگا اس وقت جو اس کو مانے گا اسے وہ دے گا، بارش برسائے گا، غلہ پیدا کرے گا،  زمین میں مدفون خزانے اس کے تابع ہوجائیں گے، ایسے حالات میں آج کل کے بال پرست اور ضعیف العقیدہ لوگ اپنا ایمان کیوں کر محفوظ رکھ سکیں گے۔

ایمان اور عقیدہ کی سلامتی کے لیے حضرت عمر فاروقؓ نے ایک مقدس تاریخی درخت جس کا ذکر قرآنِ مجید میں بھی ہے، محض اس لیے کٹوادیا کہ لوگ ا س کی زیارت کے لیے بڑے اہتمام سے آتے تھے، اسی طرح مکہ و مدینہ کے راستہ میں وہ جگہ جہاں آں حضرت ﷺ نے نماز ادا فرمائی تھی،  وہاں لوگوں کو بڑے اہتمام سے جاتے ہوئے دیکھ  کر ان کو تنبیہہ فرمائی اور فرمایا:  "فإنّما هلك من کان قبلکم بمثل ذلك کانوا یتبعون آثار الأنبیاء" (تم سے پہلی قومیں اسی لیے ہلاک و برباد ہوئیں کہ تمہارے اس فعل کی طرح وہ اپنے نبیوں کے نشانات کے پیچھے لگاکرتی تھیں۔(البلاغ المبین ص ۷)

یہ دونوں مثالیں مسلمانوں کے لیے سبق آموز ہیں۔ آدمی کے بدن سے علیٰحدہ شدہ بالوں کے لیے اولیٰ یہ ہے کہ ان کو زمین میں دفن کر دیا جائے، ان کو پھینک دینا بھی جائز ہے، مگر پاخانے  یا غسل خانے میں نہ ڈالے؛ اس لیے کہ اس سے مرض پیدا ہوتا ہے۔

"فإذا قلم أظفاره أو جزّ شعره ینبغي أن یدفن ذلك الظفر والشعر المجزوز، فإن رمی به فلا بأس، وإن ألقاه في الکنیف أو في المغتسل یکره ذلك؛ لأن ذلك یورث داء، کذا في فتاویٰ قاضي خان". (فتاویٰ عالمگیري ج۵ ص ۳۵۸ کتاب الکراهية، الباب التاسع عشر في الحنان والخصآء وقلم الأظفار ...الخ فقط و اﷲ أعلم بالصواب)

نوٹ:۔بھائیو! قرآن شریف،  ﷲ کا قانون ہے،  یہ ایک کامل اور بہترین دستور العمل ہے، اس میں بھلائی اور ہدایت کا راستہ تلاش کرنا چاہیے، جسے اختیار کر کے دین اور دنیا کی بھلائی حاصل کر سکتے ہیں، مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج ہم نیکی اور ہدایت کے راستہ کی تلاس چھوڑ کر قرآن شریف میں بال تلاش کرنے لگے ہیں اور اگر اتفاق سے کوئی بال نکل آتا ہے تو ا س کی پرستش میں لگ جاتے ہیں، (معاذ اﷲ ) کتنے افسوس کا مقام ہے۔ ﷲ ہم سب کو نیک توفیق عنایت کرے۔آمین ۔فقط و ﷲ اعلم"۔ (فتاوی رحیمیہ ، جلد سوم ، ص:20.21،دارالاشاعت)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200661

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں