بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قتل کے کفارہ میں دو ماہ مسلسل روزے رکھنا


سوال

جون 2011 میں صبح موٹر سائیکل پر دفتر جارہا تھا کہ نادرا دفتر کے پاس ایک صاحب نے اچانک سڑک کراس کرنے کی کوشش کی، ان کا دھیان دوسری طرف سے آنے والی ٹریفک کی طرف تھا،  میں نے ان کو بچانے کی کوشش کی، لیکن جس طرف میں مڑا وہ بھی اس طرف ہی مڑے جس کی وجہ سے وہ موٹر سائیکل سے ٹکرا کر پیچھے کی طرف گرے، جب کہ میں اچھل کر موٹر سائیکل سے آگے جا گرا۔ میں چوں کہ کافی آگے گرا تھا تو لوگوں نے پہلے مجھے اٹھایا اور ایک گاڑی میں بٹھایا اور پھر ان کو بھی اسی گاڑی میں بٹھایا اور پولی کلینک ہسپتال لے گئے۔  سر کے بل گرنے کی وجہ سے میری گلے کے ساتھ والی ہڈی ٹوٹی اور ایک آنکھ  اوپر سے زخمی ہوئی۔  پھر پتا چلا کہ ان صاحب کی حالت زیادہ خراب ہو گئی اور ان کو پمز لے گئے ، وہاں جا کر وہ فوت  ہوگئے۔ مجھے پولیس والے ساتھ لے گئے، لیکن بعد میں ضمانت پر چھوڑ دیا۔

میرے بھائی ان کے  گاؤں گئے اور ان سے بات وغیرہ کی تو ان کے لواحقین نے کہا کہ ہم نے اسےمعاف کر دیا۔  بعد میں جب پولیس میں بیان دینے کو کہا تو  انہوں نے بچوں کے لیے پیسے مانگے اور 150000 روپے نقد ادا کیے اور ان کے بیٹے نے معافی نامہ پر دستخط  کردیے اور مسئلہ حل ہوگیا۔

موقع پر موجود لوگوں کے مطابق میرا گناہ بھی نہیں تھا، اب مجھے پتا چلا کہ مجھے 2 ماہ کے مسلسل روزے رکھنے ہیں جو میں نے شروع کیے ہیں۔ مجھے بظاہر کوئی مسئلہ نہیں، نہ بھوک اور نہ پیاس کا۔ لیکن مجھے دن کو سر درد  ہوتا ہےاور کام نہیں ہوتا۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں کفارے کے طور پر  مسلسل ساٹھ روزے رکھنا  سائل پر لازم ہو گا،  کفارہ کے روزے میں اگرمرض کی وجہ سے تسلسل باقی نہ رہے تو از سر نو رکھنے پڑیں گے۔

باری تعاٰلیٰ کا ارشاد ہے:

{وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلاَّ خَطَئًا وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَئًا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ إِلاَّ أَن يَصَّدَّقُواْ فَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَهُوَ مْؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِّيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِّنَ اللّٰه وَكَانَ اللّٰه عَلِيمًا حَكِيمًا}[النساء:92]

ترجمہ: "کسی مسلمان کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کو قتل کرے ، الاَّیہ کہ غلطی سے ایسا ہو جائے اور جو شخص کسی مسلمان کو غلطی سے قتل کر بیٹھے تو اس پر فرض ہے کہ وہ ایک مسلمان غلام آزاد کر ے اور دیت ( یعنی خوں بہا) مقتول کے ورثاء کو پہنچائے، الاَّیہ کہ وہ معاف کر دیں۔ اور اگر مقتول کسی ایسی قوم سے تعلق رکھتا ہو جو تمہاری دشمن ہو، مگر وہ خود مسلمان ہو، تو بس ایک مسلمان غلام کو آزاد کرنا فرض ہے (خون بہا دینا واجب نہیں)۔ اور اگر مقتول ان لوگوں میں سے ہے جو ( مسلمان نہیں، مگر) ان کے اور تمہارے درمیان کوئی معاہدہ ہے تو بھی یہ فرض ہے کہ خون بہا اس کے وارثوں تک پہنچایا جائے اور ایک مسلمان غلام کو آزاد کیا جائے۔ ہاں! اگر کسی کے پاس غلام نہ ہو تو اس پر فرض ہے کہ دو مہینے تک مسلسل روزے رکھے۔ یہ توبہ کا طریقہ ہے، جو اللہ نے مقرر کیا ہے اور اللہ علیم وحکیم ہے"۔

خلاصہ یہ کہ دیت تو ورثاء کے معاف کرنے سے معاف ہو جائے گی؛ کیوں کہ دیت اور قصاص میں ورثاء کا حق بھی ہے، اور اس حق کو قرآنِ مجید میں بھی بیان کیا گیا ہے:

{فمن عفی له من اخیه شي ء فاتباع بالمعروف ... الآية} [البقرة: 178]

ترجمہ: پھر جسے معاف کردیا جائے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ، تو پیروی کرنا ہے دستور کے مطابق ۔۔۔ الخ

 جہاں تک کفارے کے روزے رکھنے کا حکم ہے تو وہ بہرحال لازم ہوں گے؛ کیوں کہ کفارہ ورثہ کے حق کے طور پر لازم نہیں ہوتا کہ ان کے معاف کرنے سے معاف ہو، لہذا درد سر اگر اتنا زیادہ ہو کہ برداشت کرنا ممکن نہ رہے تو  معالج سے رجوع کیجیے، یا اس صورت میں روزے موقوف کردیجیے، صحت مل جانے کے بعد مسلسل دو ماہ کے روزے رکھ  لیجیے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200122

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں