بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قتل جاری مجری خطا کی صورت میں دیت اور کفارہ کے احکام


سوال

بچہ دب کر مرجائےتو کفارہ لازم ہے،  اس کی تفصیل درکار  ہے، دیت لازم ہے  تو معافی کیسے ہوگی؟ جب ورثاء معاف کریں تو کیا کفارہ صوم ساقط ہوتا ہے؟

جواب

آپ نے سوال میں جو صورت ذکر کی ہے ا یسی صورت میں بچے کا مر جانا جا ری مجر ی خطا کی قسم میں آ تا ہے جس میں عاقلہ پر دیت اور قا تل پر کفارہ لا زم ہو تا ہے، باری تعاٰلیٰ کا ارشاد ہے:

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلاَّ خَطَئًا وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَئًا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ إِلاَّ أَن يَصَّدَّقُواْ فَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَهُوَ مْؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِّيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِّنَ اللّٰه وَكَانَ اللّٰه عَلِيمًا حَكِيمًا (سورة النساء، آیت:92)

ترجمہ: "کسی مسلمان کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کو قتل کرے ، الاَّیہ کہ غلطی سے ایسا ہو جائے اور جو شخص کسی مسلمان کو غلطی سے قتل کر بیٹھے تو اس پر فرض ہے کہ وہ ایک مسلمان غلام آزاد کر ے اور دیت ( یعنی خوں بہا) مقتول کے ورثاء کو پہنچائے، الاَّیہ کہ وہ معاف کر دیں۔ اور اگر مقتول کسی ایسی قوم سے تعلق رکھتا ہو جو تمہاری دشمن ہو، مگر وہ خود مسلمان ہو، تو بس ایک مسلمان غلام کو آزاد کرنا فرض ہے (خون بہا دینا واجب نہیں)۔ اور اگر مقتول ان لوگوں میں سے ہے جو ( مسلمان نہیں، مگر) ان کے اور تمہارے درمیان کوئی معاہدہ ہے تو بھی یہ فرض ہے کہ خون بہا اس کے وارثوں تک پہنچایا جائے اور ایک مسلمان غلام کو آزاد کیا جائے۔ ہاں! اگر کسی کے پاس غلام نہ ہو تو اس پر فرض ہے کہ دو مہینے تک مسلسل روزے رکھے۔ یہ توبہ کا طریقہ ہے، جو اللہ نے مقرر کیا ہے اور اللہ علیم وحکیم ہے"

* مقتول کی دیت سو اونٹ یا دس ہزار درہم یا ایک ہزار دینار یا اس کے برابر قیمت ہے، اور دیت کی ادائیگی قاتل کی عاقلہ پر لازم ہوتی ہے، اور  دیت میں حاصل شدہ مال مقتول کے ورثہ میں شرعی اعتبار سے تقسیم ہو گا۔ جو وارث اپنا حصہ معاف کر دے گا اس قدر معاف ہو جائے گا اوراگر سب نے معاف کر دیا تو سب معاف ہو جائے گا ۔

* کفارے میں مسلسل ساٹھ روزے رکھنا قاتل پر لازم ہو گا، کفارہ کے روزے میں اگرمرض کی وجہ سے تسلسل باقی نہ رہے تو از سر نو رکھنے پڑیں گے، ہاں! عورت کے حیض کی وجہ سے تسلسل ختم نہیں ہو گا، یعنی اگر کسی عورت سے قتل ہو گیا  اور وہ 60 روزے کفارہ میں رکھ رہی ہے تو  60 روزے رکھنے کے دوران ماہ واری کے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا وہ ماہ واری سے فراغت کے بعد 60 روزوں کو جاری رکھے گی۔
خلاصہ یہ کہ دیت  تو ورثاء کے معاف کرنے سے معاف ہو جائے گی؛  کیوں کہ دیت اور قصاص میں ورثاء کا حق بھی ہے،  اور اس حق کو قرآنِ مجید میں بھی بیان کیا گیا ہے:

"فمن عفی له من اخیه شي ء فاتباع بالمعروف ... الآية" [البقرة: 178]

ترجمہ: پھر جسے معاف کردیا جائے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ، تو پیروی کرنا ہے دستور کے مطابق ۔۔۔ الخ

لہٰذا دیت یا قصاص لازم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے نفاذ کا حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، لیکن ورثہ کے حق کا لحاظ رکھتے ہوئے، اگر وہ بدلہ چاہیں تو کوئی طاقت انہیں اس حق سے محروم نہیں کرسکتی، اور اگر وہ معاف کرنا چاہیں تو مجرم سے دنیا میں بدلہ نہیں لیا جائے گا۔ باقی قتل یا کوئی عضو تلف کرنا اگر ارادے سے ہو تو اس پر جو گناہ لازم ہوگا وہ توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوگا۔

جہاں تک کفارے کے روزے رکھنے کا حکم ہے تو وہ بہرحال لازم ہوں گے؛ کیوں کہ کفارہ ورثہ کے حق کے طور پر لازم نہیں ہوتا کہ ان کے معاف کرنے سے معاف ہو۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200450

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں