بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قبلہ کی طرف پاؤں پھیلانے کا حکم


سوال

ایڈوکیٹ فیض سید کیسے ہیں؟ یعنی ان کے بیانات سن سکتے ہیں؟  انہوں نے کہا ہے کہ : کعبہ کی طرف پاؤں کرنا احتراماً منع ہے، ورنہ گناہ نہیں، کیا ایسی ہی بات ہے؟  کیا جان بوجھ کر ایسا کیا جاسکتا ہے؟

جواب

۱)کسی شخصیت کے متعلق نام لے کر سوال کرنے کی بجائے اس کے افکار ونظریات ذکر کرکے سوال کیا جاسکتا ہے، ان نظریات کو دیکھ کر جواب دیا جاسکتاہے۔

۲) قبلہ کی طرف پاؤ ں پھیلانا خلاف ادب ہے، اگر بلا عذر قصداً واراداۃً ایسا کیا جائے تو مکروہ تحریمی ہے، اور مکروہ تحریمی کا ارتکاب گناہ ہے، یہاں تک کہ فقہاء نے تو  قصداً  کعبۃ اللہ کی طرف پاؤں پھیلانے والے کی گواہی تک کو قبول نہیں کیا،  جب کہ گواہی صرف اسی عمل کے ارتکاب سے مردود ہوتی ہے جو عمل فسق کے دائرہ میں داخل ہوتا ہو،  البتہ اگر قصداًیا تساھلاً( معمولی اور ہلکا سمجھتے ہوئے) نہ ہو تو پھر گناہ نہیں، البتہ خلافِ ادب ضرور ہے۔ فتاوی شامی میں ہے: " ویکره  تحریماً استقبال القبلة بالفرج ۔۔۔کماکره مد رجلیه فی نوم او غیرها الیها ای عمدا لانه اساء ة ادب ۔ قال تحته: سیاتی انه بمد الرجل الیها ترد شهادته."( ج: ۱، ص: ۶۵۵) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143902200083

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں