بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قبر کو محفوظ کرنے کے لیے پکا کرنا اور اس پر تختی لگانا


سوال

قبر کو محفوظ کرنے کی نیت سے کس حد تک پکا کیا جا سکتا ہے؟ اور خود یا نئی نسل کو قبر  کی پہچان کے لیے نام کی تختی لگا سکتے ہیں؟ نیز قبروں کو پکا کر نے کی پرانی اور نئی صورتوں کی بھی وضاحت کردیں۔ ایک پلاسٹک کی قبر نما شیپ بھی آئی ہے حفاظت کے لیے اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

قبر  (یعنی جتنی جگہ میں میت ہے) پکی کرنے کے حوالے سے احادیث میں ممانعت آئی ہے، جس کی وجہ سے قبر  پکی کرنا جائز نہیں، تاہم  قبر کو محفوظ بنانے کے لیے قبر کے ارد گرد ایسی  رکاوٹ لگادی جائے جس کے ذریعہ کسی جانور وغیرہ کو قبر تک رسائی ممکن نہ ہو، مثلاً قبر کے ارد گرد کانٹے رکھ دیے جائیں یا قبر کے اطراف میں اینٹوں کی باڑ لگانا اس طرح کہ میت کے جسم کے محاذ میں نیچے سے اوپر تک قبر کچی رہے، یہ جائز اور درست ہے، یعنی میت کا جسم چاروں جانب سے مٹی کے اندر رہے، اطراف کی جگہ اینٹیں لگادی جائیں تو حرج نہیں،تاکہ قبر محفوظ رہے۔(کفایت المفتی ، 4/50)

اور قبر کے سرہانے ماربل یا پتھر کاکتبہ لگاناجس پر میت کا نام تحریر ہومباح ہے، لیکن اس پر کلمہ یا قرآنی آیات لکھنا جائز نہیں ہے، اس سے کلمہ اور کلام پاک کی بے ادبی ہوتی ہے، نیز مبالغہ آمیز اشعار وغیرہ لکھنا بھی درست نہیں ہے۔ فتاوی رحیمیہ میں مفتی عبدالرحیم لاجپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’کوئی خاص ضرورت ہو ،مثلاً: قبر کا نشان باقی رہے، قبر کی بے حرمتی اور توہین نہ ہو،لوگ اسے پامال نہ کریں ،اس ضرورت کے پیش نظر قبر پر حسبِ ضرورت نام اور تاریخ وفات لکھنے کی گنجائش ہے، ضرورت سے زائد لکھناجائز نہیں۔اور قرآنِ پاک کی آیت اور کلمہ وغیرہ تو ہرگز نہ لکھاجائے‘‘۔(فتاوی رحیمیہ 7/140،ط:دارالاشاعت-احکام میت ،باب چہارم ، ص:157،ط:ادارۃ الفاروق )

خلاصہ یہ ہے کہ قبر  کو (میت کی محاذات میں جتنی زمین ہے اسے)  کچا رکھنا ضروری ہے، قبر پکا کرنے اور اس کی تزیین کی جدید اور قدیم صورتیں شرعاً درست نہیں ہیں، خواہ پلاسٹک وغیرہ سے قبر پکی کی جائے۔

سنن الترمذيمیں ہے:

"١٠٥٢ - حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الأَسْوَدِ أَبُو عَمْرٍو البَصْرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: «نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُجَصَّصَ القُبُورُ، وَأَنْ يُكْتَبَ عَلَيْهَا، وَأَنْ يُبْنَى عَلَيْهَا، وَأَنْ تُوطَأَ». [ص: ٣٦٠] هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ". (بَابُ مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ تَجْصِيصِ القُبُورِ، وَالكِتَابَةِ عَلَيْهَا)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح  میں ہے:

"قوله: "ولا يجصص" به قالت الثلاثة لقول جابر: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن تجصيص القبور، وأن يكتب عليها، وأن يبنى عليها. رواه مسلم وأبو د اود والترمذي وصححه". ( كتاب الصلاة، باب احكام الجنائز، فصل في حملها و دفنها، ص: ٦١١) 

فتاویٰ خانیہ میں ہے :

"ویکره الآجر في للحد إذا کان یلي المیت، أما فیما وراء ذلك لا بأس به". (الخانیة علی هامش الهندیة، 1/194)

حاشیۃ الطحطاوی میں ہے:

"(ويكره البناء عليه) ظاهر إطلاقه الكراهة أنها تحريمية، قال في غريب الخطابي: نهى عن تقصيص القبور وتكليلها. انتهى. التقصيص التجصيص والتكليل: بناء الكاسل، وهي القباب والصوامع التي تبنى على القبر ... وقد اعتاد أهل مصر وضع الأحجار حفظًا للقبور عن الإندارس والنبش ولا بأس به". (1/405) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144105200206

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں