بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قبر پر مٹی ڈالنا پودے لگانا اور قبر کے اطراف میں اینٹیں لگانے کا حکم


سوال

کیا قبر پر مٹی ڈلوانا (تاکہ قبر زمین کے ساتھ برابر نہ ہو)،  قبر پر پودا لگانا اور لال اینٹوں سے  قبر کے ارد گرد حاشیہ کھینچنا درست ہے یا نہیں؟

جواب

شرعی حکم یہ ہے کہ قبر پر مٹی ڈال کر اسے اونٹ کے کوہان کی مانند ایک بالشت اونچا بنایاجائے،  یہی طریقہ افضل ہے۔ قبر کو اس سے زیادہ اونچا بنانا مکروہ  ہے۔ نیزاگر قبر منہدم یا خراب ہورہی ہو تو اس پر مٹی ڈالنا اور درست کرنا جائز ہے، البتہ اس کام کے لیے کسی دن کو مخصوص کرنا ٹھیک نہیں۔

قبروں پر پودے لگانا یا پھول ڈالنا شرعاً  ثابت نہیں، رسول اللہ ﷺنے دو قبروں پر تر ٹہنی اپنے دستِ اقدس سے گاڑھی تھی، یہ آپ کی خصوصیت تھی، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺکا دو قبروں پر گزر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان دونوں مردوں کو عذاب ہورہا ہے،  پھر آپ ﷺ نے کھجور کے درخت کی ایک تر شاخ لے کر اسے درمیان سے چیر کر دو حصہ کردیا، پھر ایک حصہ ایک قبر پر اور دوسرا حصہ دوسری قبر پر گاڑ دیا، لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ!  یہ آپ نے کس مصلحت سے کیا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ  امید ہے کہ جب تک یہ خشک نہ ہوں، ان سے عذاب ہلکا ہو جاوے۔(مشکاۃ)

شارحینِ حدیث نے اس حدیث کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ عمل صرف حضور ﷺ کے ساتھ خاص تھا؛ کیوں کہ آپ ﷺ کو بذریعہ وحی ان مردوں کے عذاب میں مبتلا ہونے کی خبر دی گئی تھی، اور یہ بھی بتایا گیا تھا کہ آپ ﷺ کے اس طرح ٹہنی لگانے سے ان کے عذاب میں تخفیف کردی جائے گی، اسی لیے آپ ﷺ نے یہ عمل صرف ان ہی دو مردوں کی قبر کے ساتھ کیا تھا، عمومی طور سے آپ ﷺ کا معمول قبروں پر ٹہنی گاڑنے کا نہیں تھا، رسول اللہ ﷺ کے بعد تو کسی کو بذریعہ وحی یہ بات معلوم نہیں ہوسکتی ہے کہ کس قبر والے کو عذاب ہورہا ہے اور کس کو نہیں، اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی آپ ﷺ کے بعد  اس عمل کو اپنا معمول نہیں بنایا۔
لہٰذا قبروں کی مٹی پر باقاعدہ پودے لگانے یاپھول ڈالنے کی  شریعتِ مطہرہ میں کوئی حیثیت نہیں ہے اور یہ عمل رسول اللہ ﷺ کے دو معذب (عذاب میں مبتلا) لوگوں کی قبروں پر ٹہنی لگانے کی طرح نہیں ہے، اس لیے اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

اس بارے میں تفصیلی کلام اور دلائل حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ کی کتاب ’’اختلاف امت اور صراط مستقیم‘‘ میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (5 / 4):
’’أنكر الخطابي ومن تبعه وضع الجريد اليابس، وكذلك ما يفعله أكثر الناس من وضع ما فيه رطوبة من الرياحين والبقول ونحوهما على القبور ليس بشيء‘‘. 

قبر کو اطراف سے پختہ کرنا یا اطراف میں اینٹوں کی باڑ لگانا اس طرح کہ میت کے جسم کے محاذ  (برابری) میں نیچے سے اوپر تک قبر کچی رہے، جائز اور درست ہے،  یعنی میت کا جسم چاروں جانب سے مٹی کے اندر رہے، اطراف کی جگہ اینٹیں لگادی جائیں تو حرج نہیں، تاہم زیادہ بہتر یہ ہے کہ آگ پر پکی ہوئی اینٹیں استعمال نہ کی جائیں۔ (کفایت المفتی ، 4/50)

بدائع الصنائع میں ہے :

"ويسنم القبر ولايربع ، وقال الشافعي: يربع ويسطح؛ لما روى المزني بإسناده {عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه لما توفي ابنه إبراهيم جعل قبره مسطحًا}، ولنا ما روي عن إبراهيم النخعي أنه قال: أخبرني من رأى قبر رسول الله صلى الله عليه وسلم وقبر أبي بكر وعمر أنها مسنمة، وروي أن عبد الله بن عباس رضي الله عنهما لما مات بالطائف صلى عليه محمد ابن الحنفية، وكبر عليه أربعًا، وجعل له لحدًا، وأدخله القبر من قبل القبلة، وجعل قبره مسنمًا، وضرب عليه فسطاطًا؛ ولأن التربيع من صنيع أهل الكتاب، والتشبيه بهم فيما منه بد مكروه، وما روي من الحديث محمول على أنه سطح قبره أولا، ثم جعل التسنيم في وسطه حملناه على هذا بدليل ما روينا، ومقدار التسنيم أن يكون مرتفعًا من الأرض قدر شبر، أو أكثر قليلًا". (3/341)

فتاوی شامی میں ہے :

"(قوله: ويسنم ) أي يجعل ترابه مرتفعًا عليه كسنام الجمل؛ لما روى البخاري عن سفيان النمار: أنه رأى قبر النبي ﷺ مسنمًا. وبه قال الثوري والليث ومالك وأحمد والجمهور".(2/237)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويسنم القبر قدر الشبر ولايربع ولايجصص، ولا بأس برش الماء عليه. ويكره أن يبنى على القبر أو يقعد أو ينام عليه أو يوطأ عليه أو تقضى حاجة الإنسان من بول أو غائط أو يعلم بعلامة من كتابة ونحوه، كذا في التبيينوإذا خربت القبور فلا بأس بتطيينها، كذا في التتارخانية. وهو الأصح وعليه الفتوى، كذا في جواهر الأخلاطي". (4/479)

فتاویٰ خانیہ میں ہے :

"ویکره الآجر في للحد إذا کان یلي المیت، أما فیما وراء ذلك لا بأس به". (الخانیة علی هامش الهندیة، 1/194) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144104200206

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں