بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قبروں پر پھول ڈالنا اور اگربتی جلانا


سوال

قبروں پر پھول ڈالنا اور  اگربتی جلانا جائز ہے یا بدعت؟

جواب

قبر وں پر پھول ڈالنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم،  تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ  سے ثابت نہیں ہے، اس لیے  قبر پر پھول ڈالنا درست نہیں ہے،  قبروں پر  پھول ڈالنے کے بجائے یہ رقم صدقہ وخیرات کرکے  اس کا ثواب میت کو بخش دیاجائے  تو یہ زیادہ بہتر ہے، تاکہ میت کو بھی فائدہ ہو اور رقم بھی ضائع نہ ہو۔

قبروں پر اگربتیاں یا چراغ جلانا بھی بدعت ہے، جس کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں،  نیز احادیثِ مبارکہ میں رسول کریم ﷺنے قبروں پر چراغ جلانے سے سخت ممانعت فرمائی ہے اور ایسے فعل کے مرتکب پر لعنت فرمائی ہے۔

مشکاۃ شریف کی روایت میں ہے :

" وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَعَنَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله علیه وسلم زَائِرَاتِ الْقُبُوْرِ وَالْمُتَّخِذِیْنَ عَلَیْهَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرْجَ". (رواه أبوداؤد و الترمذي والنسائي)."

ترجمہ: " اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  ﷺنے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر اور قبروں کو مسجد بنا لینے (یعنی قبروں پر سجدہ کرنے والوں) اور قبروں پر چراغ جلانے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔"

صاحبِ مظاہرِ حق لکھتے ہیں :

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائے اسلام میں قبروں کی زیارت کرنے سے منع فرمایا تھا، پھر بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دے دی تھی، چنانچہ بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ اجازت مردوں اور عورتوں دونوں کے حق میں تھی، لہٰذا عورتوں کو پہلے تو قبروں کی زیارت کرنے کی اجازت نہیں تھی، مگر اب اس عام اجازت کے پیشِ نظر درست و جائز ہے۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ اس اجازت کا تعلق صرف مردوں سے ہے عورتوں کے حق میں وہ نہی اب بھی باقی ہے اور وجہ اس کی یہ بیان کرتے ہیں کہ عورتیں چوں کہ کم زور  دل اور غیر صابر ہوتی ہیں، نیز ان کے اندر جزع و فزغ کی عادت ہوتی ہے؛ اس لیے ان کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ قبروں پر جائیں۔ چنانچہ یہ حدیث بھی بظاہر ان ہی علماء کی تائید کرتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت جمہور علماء کے نزدیک اس حکم سے مستثنیٰ ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت مرد ہو یا عورت سب کے لیے جائز ہے۔ قبر پر چراغ جلانا اس لیے حرام ہے کہ اس سے بے جا اسراف اور مال کا ضیاع ہوتا ہے‘‘۔

عمدة القاري شرح صحيح البخاري - (5 / 4):

’’أنكر الخطابي ومن تبعه وضع الجريد اليابس وكذلك ما يفعله أكثر الناس من وضع ما فيه رطوبة من الرياحين والبقول ونحوهما على القبور ليس بشيء‘‘.

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وإخراج الشموع إلى رأس القبور في الليالي الأول بدعة، كذا في السراجية". (5/331رشیدیه)

دونوں مسائل کی تفصیل کے لیے حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانوی شہید ؒ کی کتاب’’اختلافِ امت اور صراط مستقیم‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200657

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں