بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قاضی کے لیئے اپنے باپ کے خلاف تعزیری فیصلہ دینے کا حکم


سوال

 کیافرماتے ہیں علماءکرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ جوآدمی کسی شہرمیں قاضی ہواوراس شہرمیں اس کےباپ پرتعزیرکامسئلہ آجائےتویہ قاضی اپنےباپ پرتعزیرکی فیصلہ کرسکتاہےکہ اسپرتعزیرجاری ہوجائےیانہیں ، اگرکرسکتاہےپھرقرآن مجیدمیں جوفرمان ہے ،ولاتقل لهمااف . اوراسی طرح وہ واقعہ کہ حالت جھادمیں اگرباپ مقابلہ پرآجائےتواس کوقتل نہ کرے گابلکہ اس سے اعراض کرے گاکوئی اوراس کوقتل کرے تواس کےساتھ جوتعارض نظرآرہاہےاس کےتسلی بخش جواب حوالوں کے ساتھ دےدے۔

جواب

واضح رہے کہ قضاء اور شہادت کے ابواب میں اگر اپنے والدٰ کے خلاف فیصلہ کرنے کی یا گواہی دینے کی نوبت آجائے تو باپ کا رشتہ فیصلہ اور اس کے نفاذ سے مانع نہیں بن سکتا، سورۃ النساء آیت ۱۳۵ میں اللہ جل شانہ نے درست گواہی کا حکم دیتے ہوئے تاکید فرمائی ہے کہ اگرچہ یہ گواہی خود تمھارے اپنے خلاف یا تمھارے والدین یا قریبی رشتہ داروں کے خلاف ہو تب بھی اس سے دریغ نہ کرو۔ لہذا صورت مسؤلہ میں اگر قاضی کو اپنے باپ کے خلاف تعزیر کا فیصلہ اور اس کا نفاذ کرنا پڑے تو یہ قطعا باپ کی حق تلفی میں شامل نہیں، بلکہ باپ کی قابل تعزیر غلطی پر اس کے خلاف تعزیر کے فیصلہ اور اس کے نفاذ پر جہاں اسلام کے عادلانہ نظام کا اظہار ہوگا وہیں حدیث انصر اخاک ظالما او مظلوما فقیل : یا رسول اللہ ھذا ننصرہ مظلوما فکیف ننصرہ ظالما؟ قال: تردہ عن الظلم فذلک نصر منک ایاہ کہ ظالم کو ظلم سے روکنا اس کی نصرت ہے، کی رو سے باپ کے خلاف فیصلہ کرکے اور عملا اس کی تنفیذ کے ذریعہ باپ کو  غلطی سے روک کر ان کی نصرت کا فریضہ بھی پورا ہوگا۔نیز لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق سے واضح ہوتا ہے جہاں اللہ کی نافرمانی آرہی ہو وہاں والدین کی اطاعت جائز نہیں جبکہ اللہ پاک نے درست فیصلہ کا حکم دیا ہے اگرچہ والدین کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ امام ابوبکر جصاص رحمہ اللہ نے احکام القران(جلد:۲، ص:۴۰۱، ط: قدیمی کتب خانہ)  میں اس آیت کے ذیل میں اس کی تفصیل لکھی ہے۔ واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143706200021

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں