بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قادیانی کا مسجد کے لیے پلاٹ دینا


سوال

قادیانی اپنی خوشی سے مسلمانوں کو مسجد بنانے کے لیے پلاٹ وقف کرتا ہے تو اس پلاٹ میں مسجد بناسکتے ہیں؟ اور اگر بنادی گئی ہے تو اس مسجد کا کیا حکم ہے؟

جواب

قادیانی فرقہ مرتد و زندیق، کافر محارب فرقہ ہے، جو اپنے آپ کو مسلمان اور مرزا غلام احمد قادیانی ملعون کو نبی نہ ماننے والے اہلِ اسلام کوکافر  گردانتا ہے، جس کی وجہ سے اس فرقہ سے کسی قسم کا تعلق رکھنا شرعاً و اخلاقاً جائز نہیں، اور مسجد کے لیے اس فرقہ سے چندہ لینا یا پلاٹ لینا بھی ممنوع ہے، کیوں کہ قادیانی مسجد کے لیے پلاٹ دے کر عوام الناس میں اپنے آپ کو  مسلمان باور کرا کر سادہ لوح مسلمانوں کی گم راہی کا سبب ہوگااور مسجد کا واقف ہونے کے سبب دینی اور انتظامی امور میں مداخلت کرے گا ۔لہذا اگر قادیانی کے دیے ہوئے پلاٹ پر مسجد بنا دی گئی ہے تو اس زمین کی قیمت ادا کردی جائے۔

جامعہ کے ایک سابقہ فتویٰ (جس پر مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن خان ٹونکی رحمہ اللہ کی تصحیح و تصدیق موجود ہے) میں تحریر ہے:

’’صورتِ مسئولہ میں قادیانی کے لیے امداد دینا بالکل بے کار ہے؛ کیوں کہ قرآنِ پاک میں ہے: ’’اولئك حبطت اعمالهم‘‘ (التوبۃ) اور قادیانی جو کہ کافرِ محارب وموذی ہے اور وہ اپنے آپ کو غیر مسلم ہونے کے باوجود مسلمان سمجھتاہے، اور دوسرے مسلمانوں کو کافر سمجھتاہے، اور اس امداد کے ذریعے مسلمانوں کو قادیانیت کی طرف رغبت دلاتاہے؛ اس لیے کسی مسلمان کے لیے اس بے دین قادیانی کی امداد لینا جائز نہیں ہوگا؛ کیوں کہ اس بے دین قادیانی کی امداد کو قبول کرکے اس بے دین قادیانی کو عزت دینا ہے، اور کافر عزت کے لائق نہیں ہوتا‘‘۔

کتبہ :شفیق الرحمٰن

الجواب صحیح: ولی حسن ابوبکر سعید الرحمٰن

قال الجصاص الرازي: ’’ وفي هذه الآية دلالة على أنه لاتجوز الاستعانة بأهل الذمّة في أمور المسلمين من العمالات والكتبة‘‘. (أحكام القرآن للجصاص الرازي، (آل عمران: 118) (2/47) ط: دار الكتب العملمية بيروت)

وفيه أيضاً: ’’ فيه نهي عن الاستنصار بالمشركين؛ لأن الأولياء هم الأنصار‘‘. (أحكام القرآن للجصاص، (المائدة:57) مطلب في الاستعانة بالمشركين، (2/559) ط: دار الكتب العلمية، بيروت) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200512

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں