بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قادیانی معالج سے علاج اور کمیشن لینے کا حکم


سوال

1- قادیانی ڈاکٹر سے علاج کرنےکا کیا حکم ہے ?
2- کمیشن لینے کا کیا حکم ہے شریعت میں?

جواب

1-   قادیانی کفریہ عقائد رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتاہے، اور مسلمانوں کو کافر کہتاہے اور اپنے مذہب کو اسلام کا لیبل لگاکر فروغ دیتاہے اور اپنے کفریہ عقائد کو باطل تاویلات کے ذریعہ اسلام باور کراتاہے، ایسے شخص کو شریعت کی اصطلاح میں ’’زندیق‘‘ کہتے ہیں، زندیق کا کفر انتہائی درجہ کا کفر ہے،  پوری ملتِ اسلامیہ متفقہ طور پر قادیانیوں کو کافروں کی بد ترین قسم "زندیق" اور "کافر محارب" قرار دیتی ہے، تمام مکاتبِ فکر کا متفقہ فتوی ہے کہ قادیانیوں /مرزائیوں سے خریدوفروخت ،تجارت، لین دین، سلام و کلام، ملنا جلنا، کھانا پینا، شادی و غمی میں شرکت، جنازہ میں شرکت،تعزیت،عیادت، ان کے ساتھ تعاون  سب شریعتِ اسلامیہ میں سخت ممنوع اور حرام ہیں۔ قادیانیوں کا مکمل بائیکاٹ ان کو توبہ کرانے میں بہت بڑا علاج اور ان کے رجوع اور ہدایت کا بہت بڑا ذریعہ اور ہر مسلمان کا اولین ایمانی فریضہ ہے اور رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم سے محبت کی نشانی ہے ۔ لہذا کسی مسلمان ڈاکٹر کے ہوتے ہوئے قادیانی سے علاج معالجہ کرانا جائز نہیں ہے۔

2- جائز کام کاکمیشن جائز ہے، بشرطیکہ پہلے سے طے کردیا گیا ہواور ناجائز کام کا کمیشن ناجائز ہے۔

 البتہ وہ افراد جو کسی کمپنی میں ملازم ہوں اور کمپنی کا مال بیچنے یا کمپنی کے لیے مال خریدنے پر مامور ہوں اور اس کام کی تنخواہ بھی وصول کرتے ہیں، ان کے لیے کمیشن وصول کرنا شرعاً جائز نہیں، نیز وہ شخص جس کو کسی نے مال خریدنے کے حوالہ سے اپنا وکیل بنا کر بھیجا ہو اس کے لیے قیمتِ خرید سے زائد کے واؤچر بنوا کر اپنے مؤکل (اصل خریدار) سے بطور کمیشن وصول کرنا بھی جائز نہیں۔ اسی طرح سرکاری شعبوں میں مخلتف کاموں کے لیے ذمہ داران جو رقم کمیشن کے نام سے وصول کرتے ہیں وہ لینا بھی جائز نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

’’قَالَ فِي التتارخانية: وَفِي الدَّلَّالِ وَالسِّمْسَارِ يَجِبُ أَجْرُ الْمِثْلِ، وَمَا تَوَاضَعُوا عَلَيْهِ ... وَفِي الْحَاوِي: سُئِلَ مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أُجْرَةِالسِّمْسَارِ؟ فَقَالَ: أَرْجُو أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ وَإِنْ كَانَ فِي الْأَصْلِ فَاسِدًا؛ لِكَثْرَةِ التَّعَامُلِ، وَكَثِيرٌ مِنْ هَذَا غَيْرُ جَائِزٍ، فَجَوَّزُوهُ لِحَاجَةِ النَّاسِ إلَيْهِ...‘‘ الخ ( مَطْلَبٌ فِي أُجْرَةِ الدَّلَّالِ ، ٦/ ٦٣، ط: سعيد)

وفیه أیضاً:

’’وَأَمَّا أُجْرَةُ السِّمْسَارِ وَالدَّلَّالِ فَقَالَ الشَّارِحُ الزَّيْلَعِيُّ: إنْ كَانَتْ مَشْرُوطَةً فِي الْعَقْدِ تُضَمُّ‘‘. (ه/ ١٣٦) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200889

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں