بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قادیانی تحقیقی مواد سے استفادہ کرنا


سوال

میں نے قادیانیوں سے متعلق کافی مطالعہ کیا ہے، اور ان کے بارے میں میں اس پر عمل کرتا ہوں جس پر جمہور علماء فتویٰ صادر کرتے ہیں، اور آپ کی طرف سے جو فتوے قادیانیت کے بارے میں جاری کیے گئے ہیں وہ بھی پڑھے ہیں، اب مجھے جو مسئلہ درپیش ہے وہ یہ ہے کہ میں ’’ایم اے پشتو‘‘ کر رہا ہوں، اور اس میں تنقیدی مضامین اور نظریات پر مشتمل ایک پرچہ جو تنقید کے نام سے شامل ہے۔ لیکن پشتو  زبان میں اس موضوع پر جتنا کام ہو چکا ہے، وہ نہ ہونے کے برابر ہے، اور جو کام موجود ہے وہ ایک قادیانی مصنف کا کیا ہوا ہے، جس کو بنیاد کا درجہ حاصل ہے،  پرچے میں باقاعدہ طور پر اس مصنف کے حوالے سے سوال پوچھے جاتے ہیں، اور دوسرے حوالوں سے بھی بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے۔

اب میرا سوال یہ ہے کہ مجھے اس قادیانی کے تحقیقی مواد سے استفادہ ازروئے شریعت جائز ہے یا نا جائز؟

جواب

واضح رہے کہ قادیانی لوگ،  نبی آخر الزماں محمد  مصطفی احمد مجتبی  صلی اللہ علیہ وسلم کی ختمِ نبوت  کے منکر ہونے کی وجہ سے دائرۂ اسلام سے خارج اور مرتد و زندیق ہیں، یہ فرقہ اہلِ اسلام کوکافر  گردانتا ہے، لہذا تمام مکاتبِ فکر کا متفقہ فتوی ہے کہ  اس فرقہ سے کسی قسم کا تعلق رکھنا شرعاً و اخلاقاً جائز نہیں۔

نیز کسی بھی کتاب کا مطالعہ غیر محسوس طریقے سے انسان کو اپنی جانب مائل کرتا ہے اور بسااوقات انسان اس سے متاثر ہوجاتا ہے جس کا اثر آدمی کے اعمال وافکار پرظاہر ہوتاہے۔فرقِ باطلہ کی کتب کا مطالعہ ان کے باطل نظریات سے آگاہی اور ان کی تردید کے لیے فقط ان لوگوں کو کرنے کی اجازت ہے جو اپنے ایمان ونظریات کے اعتبار سے پختہ اور علم میں رسوخ و مہارت رکھتے ہوں، ہر فرد کے لیے فرقِ باطلہ کی کتب کا کسی بھی حوالے سے مطالعہ یا استفادہ خطرہ کا باعث بن سکتاہے، نیز قادیانیوں کا حکم دوسرے  کفار سے مختلف اور شدید ہے، لہٰذا آپ کے لیے قادیانیوں کے تحقیقی مواد سے استفادہ کرنا درست نہیں ہے۔اس سلسلہ میں حضرت حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانوی  رحمہ اللہ کے چند اقوال ذیل میں نقل کیے جاتے ہیں:

 بغیر تحقیق کے ہر کتاب کا مطالعہ کرنے کے نقصانات:

’’1- بعض اوقات کم علمی کی وجہ سے یہ ہی امتیاز نہیں ہوتا کہ ان میں کون مضمون صحیح ہے کون غلط ہے ۔

2- کسی غلط بات کو صحیح سمجھ کر عقیدہ یاعمل میں خرابی کربیٹھتے ہیں ۔

3- بعض اوقات پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ امر غلط ہے، مگر بعض مصنفین کاطرزِ بیان ایسا تلبیس آمیز یادل آویز ہوتا ہے کہ دیکھنے والا فی الفور اس سے متاثر ہوجاتا ہے، اور اس کے مقابلہ میں اپنے پہلے اعتقاد کو ضعیف اور بے وقعت خیال کرکے اُس کو غلط اور اِس کو صحیح سمجھنے لگتا ہے۔

4- اور بعض دفعہ اس کو گوقبول نہیں کرتا، مگر متزلزل اور مذبذب ہوکر (یعنی شک میں پڑکر ) دل میں رکھتا ہے اور پریشان ہوتا ہے۔

5-  اور کبھی دوسروں سے تحقیق کرنا چاہتا ہے، مگر چوں کہ اس میں کچھ غموض ہوتا ہے، جس کے ادراک ( اور سمجھنے ) کے لیے اس کا علم اور ذہن کافی نہیں ہوتا؛ اس لیے سمجھ میں نہیں آتا اور لایعنی سوال کرکے دوسروں کو پریشان کرتا ہے اور جواب دینے والوں کو عاجز سمجھ کر ان کے علم یا اخلاق میں تنگی کا حکم لگاکر ان سے بدگمان ہوجاتا ہے۔

شرعی دلیل:

یہ ہی وجہ ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے راسخ العلم والعمل شخص کو   توراۃ کے مطالعہ سے منع فرمادیا، باوجود یکہ فی نفسہٖ آسمانی کتاب تھی گو اس میں تحریف بھی ہوگئی تھی، اور پھر مطالعہ بھی تنہا نہ تھا، بلکہ خودحضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کو سنارہے تھے اور اس میں محرف حصہ کا متعین ہوجانا ظاہر تھا، اس کے بعد کسی فسادکے ترتب کا احتمال نہ تھا، اس کے باوجود پھر بھی اس مصلحت سے کہ آئندہ کو یہ عمل مفاسد کادروازہ کھل جانے کا سبب نہ بن جائے کس سختی سے منع فرمایا، اور کیسی ناخوشی ظاہر فرمائی جیسا کہ دارمی کی حدیث میں مذکور ہے‘‘۔ ( اصلا ح انقلاب ص۲۸)"۔

رہبر کے مشورہ کے بغیرہر نئی کتاب یامخالفین کی کتابیں نہ دیکھنا چاہیے:

’’میں خیرخواہی کے ساتھ عرض کرتاہوں کہ نئی کتابیں نہ دیکھا کیجیے، خواہ مخواہ کوئی شبہ دل میں بیٹھ جائے گا جس کا حل آپ سے نہ ہوسکے گا تو کیانتیجہ ہوگا ، لوگ اس کو معمولی بات سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم پکے خیال کے آدمی ہیں ہمارے اوپر کیااثر ہوسکتا ہے، مگر اس قصہ میں ان کو غورکرنا چاہیے کہ حضر ت عمر رضی اللہ عنہ کو توریت اچھی معلوم ہوئی اور لاکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھنے لگے،  بتائیے اس میں کیا خرابی تھی، حضرت عمر جیسے کامل الایمان جن کی شان میں وارد ہے ( اَلشَّیْطٰنُ یَفِرُّمِنْ ظِلّ عُمَرَ ) کہ شیطان حضرت عمر کے سایہ سے بھاگ جاتا ہے۔ ان کے اوپر شیطان کے اثر ہونے کے کیا معنی، جس مجلس میں وہ موجود ہوں وہاں شیطان بھی نہیں ٹھہرتا، اور توریت جیسی آسمانی کتاب تھی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھی گئی کہ اگر مضمون کی خرابی بھی ہوجائے تواس کی حضور اصلاح فرمادیتے،  مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ناگوار ہوا، حضرت عمر کو جب حضرت ابوبکر نے آگاہ کیاکہ دیکھتے نہیں حضور کے چہرہ مبارک پر کیا اثر ہے تو حضرت عمر کانپ گئے اور بہت توبہ و استغفار کی اور معافی مانگی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارے پاس ایک سہل، پکی اور صاف ملت لایاہوں، اگر موسیٰ بھی زندہ ہوتے تو سوائے اس کے کہ میری اتباع کرتے کچھ نہ ہوتا، یعنی پھر کیا ضروری ہے کہ اس کتاب کو دیکھو جس میں تحریف ہوچکی ہے، توریت میں آمیزش تھی تحریف کی، جب اس کے دیکھنے سے منع کیا گیا تو جو کتابیں صرف الحاد وزندقہ کی ہوں ان کا حکم ظاہر ہے، اور جب حضرت عمر کو منع فرمایا گیا تو ہم کیاہیں، اور نہ معلوم کیوں دیکھتے ہیں لوگ، اپنے یہاں تو اتنے علوم ہیں کہ عمر بھر بھی ان کے دیکھنے سے فرصت نہ ملے ، اپنی کتابوں کو دیکھیے‘‘۔( حسن العزیز ص۲۲۹ج۴ )

اہلِ باطل کی مفید کتابیں دیکھنے سے بھی ضررہوتا ہے:

’’اہلِ باطل کی تصانیف جو بظاہر مفید ہوں (ان میں بھی) باطل کی جھلک ہوتی ہے اور اہلِ حق اس کا پردہ فاش کردیتے ہیں، اسی لیے باطل کی مفید تصانیف کا دیکھنا بھی مضر ہے‘‘۔ ( حسن العزیز ص۱۸۸ج۲)

فرمایا:

’’عجیب تجربہ کی بات ہے کہ بددین آدمی اگر کسی اور کی بات نقل بھی کرے، مثلاً: بددین شخص نحو کی کوئی کتاب لکھے گو اس میں کوئی مسئلہ بددینی کانہیں ہے، مگر اس کے دیکھنے سے بھی بددینی کا اثردل میں ہوگا‘‘۔ ( حسن العزیز ص۳۲۵ج۲ )

دوسرے مذاہب یاتقابلی مطالعہ کرنے کی شرط:

فرمایا:

’’عام لوگ ( سب طرح کی ) کتابیں دیکھنے لگتے ہیں، کتابیں دیکھنے کے لیے جامع شخص ہونا چاہیے ( بہت سے لوگ ) نازک کتابیں دیکھنے لگتے ہیں، اپنا ایمان خراب کرلیتے ہیں‘‘۔ ( حسن العزیز ص۳۷۶ج۴ )

آج کل اسکولوں اور بہت سے مدارس میں تقابلی مطالعہ اور تقابل کے مضمون کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے، اس کے متعلق ارشادفرمایا کہ:

’’جو شخص اپنے مذہب کی پوری معلومات نہ رکھتا ہو اس کے لیے غیر مذہبوں کی کتابوں کا مطالعہ بہت خطرناک ہے‘‘۔( مجالس حکیم الامت ص۱۴۱ )

’’اہلِ باطل کے اقوال وافعال اور حالات میں گفتگو یااس پر مشتمل کتابوں کا مطالعہ قلب کے لیے سخت مضر ہے، مناظر ہ کی ضرورت سے کبھی کبھی اگر دیکھنا پڑے توضرورت سے تجاوزنہ ہونا چاہیے‘‘۔ ( مجالس حکیم الامت ص۱۹۱ )

باطل مسلک کی کتابیں ہرگز نہ دیکھنا چاہیے:

’’غیر علماء کی کتابیں ان کی نظروں سے گزرنا بھی جرم ہے، جیسا کہ کوئی شخص باغیانہ کتابیں اپنے گھر میں رکھے، ظاہر ہے کہ قانونِ سلطنت کی روسے یہ بڑا جرم ہے، اور حکومت ایسے شخص کو سزادے گی۔

علماء پر جو تعصب کا الزام لگاتے ہو تویہ بھی سوچوکہ اس قانون میں علماء کی ذاتی کیاغرض ہے، ظاہر ہے کہ ان کی اس میں کچھ غرض نہیں، بلکہ غرض توعوام کی موافقت میں ہے، طبیب اگر تلخ دوادے توبتلاؤ اس میں اس کی کیامصلحت ہے؟  یقیناً کچھ نہیں، بلکہ سراسر مریض کی مصلحت ہے،  پس جو علماء ایسی باتوں سے منع کرتے ہیں جن میں لوگوں کو مزہ آتا ہے، سمجھ لو کہ وہ محض خیرخواہی سے منع کرتے ہیں؛ کیوں کہ وہ ان باتوں میں زہریلا اثر مشاہدہ کرتے ہیں‘‘۔

عوام کو علماء کے مشورہ کے بغیر کتابیں نہ دیکھنا چاہیے:

’’واللہ!  اہلِ باطل کی کتابوں کا اثر بعض علماء پر بھی ہوجاتا ہے تو عوام کی ان کے مطالعہ سے کیا حالت ہوگی، لہٰذا عوام کو کوئی کتاب علماء کے مشورہ کے بغیر ہرگزنہ دیکھنا چاہیے، اور اگر کوئی کہے کہ میں ردکے  لیے دیکھتا ہوں، یہ بھی مناسب نہیں؛ کیوں کہ یہ کام علماء کا ہے، تمہاراکام نہیں، اور اس میں آپ کی توہین نہیں‘‘۔( التبلیغ وعظ الفاظ القرآن ص۵۹ )

سابق مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ اپنی شہرہ آفاق تفسیر معارف القرآن میں سورہ لقمان کی آیت 6کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

فحش اور فضول ناول یا فحش اَشعار اور اہلِ باطل کی کتابیں بھی دیکھنا ناجائز ہیں:

’’اس زمانے میں بیش تر  نوجوان فحش ناول یا جرائم پیشہ لوگوں کے حالات پر مشتمل قصے یا فحش اشعار دیکھنے کے عادی ہیں،  یہ سب چیزیں اس قسم لہوِ حرام میں داخل ہیں،  اس طرح گم راہ اہلِ باطل کے خیالات کا مطالعہ بھی عوام کے لیے گم راہی کا سبب ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے، راسخ العلم علماء ان کے جواب کے لیے دیکھیں تو کوئی مضائقہ نہیں‘‘۔ (7/23)فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144106200820

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں