کیافرماتےہیں کہ آج کل نوجوان لڑکےاور لڑکیاں فیشن کے طورپر بڑےناخن رکھتےہیں، کیا ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ فطرتِ انسانی میں سے ناخن تراشنا بھی ہے، جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ’’صحیح بخاری‘‘ و ’’صحیح مسلم‘‘ میں مذکور ہے۔ اور فقہاءِ کرام نے ہر ہفتہ ناخن تراشنے کو مستحب قرار دیا ہے، اور ہرجمعے کے روز نہ کاٹ سکے تو ایک جمعہ چھوڑ کر پندرہ دن میں تراش لے، اور چالیس دن سے زیادہ ناخن یا بال نہ کاٹنا مکروہ ہے۔ البتہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دار الحرب میں موجود مسلمانوں کو بغرضِ حفاظت ناخن بڑھانے کا حکم دیا تھا، پس صورتِ مسئولہ میں مروجہ فیشن کے طور پر یا فساق و فجار کی مشابہت میں ناخن بڑھانے کی اجازت نہیں۔ نیز ناخن بڑھانا بعض بیماریوں کا سبب بھی ہے۔
مشكاة المصابيحمیں ہے:
"٤٤٢٠ - وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " «الْفِطْرَةُ خَمْسٌ: الْخِتَانُ، وَالِاسْتِحْدَادُ، وَقَصُّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِيمُ الْأَظْفَارِ، وَنَتْفُ الْإِبِطِ»". مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. ( مشكوة المصابيح، كتاب اللباس، بَابُ التَّرَجُّلِ، الْفَصْلُ الْأَوَّلُ، رقم الحديث: ٤٤٢٠)
التنوير مع الدر و الردمیں ہے:
"(وَيُسْتَحَبُّ قَلْمُ أَظَافِيرِهِ) إلَّا لِمُجَاهِدٍ فِي دَارِ الْحَرْبِ، وَفِي الْمِنَحِ: ذُكِرَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - كَتَبَ إلَيْنَا: وَفِّرُوا الْأَظَافِيرَ فِي أَرْضِ الْعَدُوِّ؛ فَإِنَّهَا سِلَاحٌ؛ لِأَنَّهُ إذَا سَقَطَ السِّلَاحُ مِنْ يَدِهِ وَقَرُبَ الْعَدُوُّ مِنْهُ رُبَّمَا يَتَمَكَّنُ مِنْ دَفْعِهِ بِأَظَافِيرِهِ وَهُوَ نَظِيرُ قَصِّ الشَّارِبِ، فَإِنَّهُ سُنَّةٌ وَتَوْفِيرُهُ فِي دَارِ الْحَرْبِ لِلْغَازِي مَنْدُوبٌ، لِيَكُونَ أَهْيَبَ فِي عَيْنِ الْعَدُوِّ اهـ مُلَخَّصًا ط". ( ٦ / ٤٠٥) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144010200144
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن