بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عبارات میں "فقد کفر" سے مراد


سوال

 کتبِ فقہ اور فتاوی ٰ جات میں متعدد جگہ اس طرح کی عبارت ملتی ہے :"فقد کفر"،اس سے کون ساکفر مراد ہے اور اس کا حکم کیا ہے؟

جواب

کتبِ فقہ اور فتاوی جات میں اس جملے کا مقصد تو پوری عبارت کے سامنے ہونے کی صورت میں بتایا جاسکتا ہے۔

البتہ  اس طرح کے الفاظ احادیثِ مبارکہ میں بھی آتے ہیں، ان میں بھی مختلف اعمال اور موقع کی مناسبت سے محدثین وضاحت کرتے ہیں، مثلاً: بعض احادیث میں نماز  وغیرہ کے ترک پر کفر کا حکم لگایا گیا ہے، اس سے مراد  وہ  صورت ہے جب اس اعتقاد سے چھوڑے کہ نماز چھوڑنا جائز ہے،  اور اس صورت میں چھوڑنے والا بہرحال کافر ہو جاتا ہے۔  یا اُن احادیث کا مطلب یہ ہے کہ اس کا یہ فعل کفار کے فعل سے مشابہ ہے۔ اور بعض مواقع پر کفر بمعنیٰ ناشکری ہوتاہے، یعنی اس شخص نے ناشکری کی ہے، اور بعض مواقع پر "کفرٌ دون کفرٍ" کی تاویل کی جاتی ہے۔  

شرح النووي على مسلم (2/ 71):
’’وتأولوا قوله صلى الله عليه وسلم: ’’بين العبد وبين الكفر ترك الصلاة‘‘ على معنى أنه يستحق بترك الصلاة عقوبة الكافر وهي القتل، أو أنه محمول على المستحل، أو على أنه قديؤول به إلى الكفر، أو أن فعله فعل الكفار، والله أعلم
‘‘. فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200493

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں