بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

فروخت کرنے کے لیے لگائے گئے درختوں میں عشر کا حکم


سوال

 ہمارے ہاں بیچنے کے لیے کھیتوں میں درخت اگائے جاتے ہیں،پانچ یا چھ سال بعد درخت بڑے ہوکر ہم بیچ  دیتے ہیں، کیا پانچ سال بعد ان درختوں کے بیچنے کے پیسوں پر عشر ہوگا کہ نہیں?

جواب

زمین کی اس پیداوار میں عشر  واجب ہوتا ہے جس سے آمدنی حاصل کرنا   یا  پیداوار سے فائدہ اٹھانا مقصود ہے، اور اسی نیت سے اس کو لگایا جائے، اور جو اشیاء خود ہی بغیر قصد کے تبعاً حاصل ہوجائیں ان میں عشر لازم نہیں ہوتا۔ لہٰذا  زرعی زمین میں خود رو درخت  جو بغیر قصد کے تبعاً حاصل ہوئے ہیں ان میں عشر لازم نہیں ہوگا۔ تاہم اگر ان درختوں کو بیچ کر نفع کمایا اور دیگر قابلِ زکاۃ اموال کے ساتھ مل کر وہ رقم زکاۃ کے نصاب کے بقدر پہنچ گئی تو زکاۃ کی شرائط کے مطابق سال پورا ہونے پر مذکورہ رقم پر زکاۃ واجب ہوگی۔

البتہ اگر کسی علاقے میں درختوں کی آبیاری اور نگہداشت اسی مقصد سے ہوتی ہوکہ ان کو  کاٹ  کر فروخت کیا جائے گا اور ان کی دیکھ بھال کی جاتی ہو ، ان سے کمائی مقصود ہوتی ہو تو ایسی صورت میں ان  درختوں میں بھی عشر واجب ہوگا۔لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ درختوں میں عشر لازم ہوگا۔

''بدائع الصنائع ''  میں ہے:

"ومنها: أن يكون الخارج من الأرض مما يقصد بزراعته نماء الأرض وتستغل الأرض به عادةً، فلا عشر في الحطب والحشيش والقصب الفارسي؛ لأن هذه الأشياء لاتستنمى بها الأرض ولاتستغل بها عادة؛ لأن الأرض لاتنمو بها، بل تفسد، فلم تكن نماء الأرض، حتى قالوا في الأرض: إذا اتخذها مقصبةً وفي شجره الخلاف، التي تقطع في كل ثلاث سنين، أو أربع سنين أنه يجب فيها العشر؛ لأن ذلك غلة وافرة"۔ (2 / 58، فصل الشرائط المحلیۃ، ط: سعید)

''فتاویٰ عالمگیری'' میں ہے:

"فلا عشر في الحطب والحشيش والقصب والطرفاء والسعف؛ لأن الأراضي لاتستنمي بهذه الأشياء، بل تفسدها، حتى لو استنمت بقوائم الخلاف والحشيش والقصب وغصون النخل أو فيها دلب أو صنوبر ونحوها، وكان يقطعه ويبيعه يجب فيه العشر، كذا في محيط السرخسي".(1 / 186،  الباب السادس فی زکاۃ الزرع والثمار، ط: رشیدیہ)

  '' تنقیح الفتاوی الحامدیہ'' میں ہے:

"(سئل) في رجل له أشجار مثمرة في أرض عشرية فقطعها ويريد العشري أخذ عشرها فهل له ذلك؟ (الجواب) : لا عشر في نفس الأشجار المثمرة، كما في الزيلعي والبحر وغيرهما۔ (أقول:) وإنما العشر في نفس الثمر، وفي الأشجار المعدة للقطع، كما مر".

(سئل) في أوراق التوت هل يجب فيها العشر أم لا؟ (الجواب) : قال في صور المسائل نقلاً عن الزاهدي ما صورته: قلت: يمكن أن يلحق به أغصان التوت عندنا وأوراقها ؛ لأنه يقصد بها الاستغلال بخوارزم وخراسان، وقد نص عليه في درر الفقه، فقال: يجب العشر في أوراق التوت وأغصان الخلاف التي تقطع في أوان تقليم الكروم وغير ذلك". (العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (1/ 12) باب الزکوٰۃ والعشر، ط: دارالمعرفۃ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200730

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں