بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حیلہ اسقاط کا حکم


سوال

اگر کسی شخص کی 5 سال کی نمازیں قضا ہیں اور اب وہ شخص وفات پا گیا اور وصیت کی کہ میری 5 سال کی نمازوں کا فدیہ ادا کر دینا تو آیا ایک ہی فقیر کو یہ سارا فدیہ دینا جائز ہے؟ اور بعض لوگ اس میں یہ حیلہ کرتے ہیں کہ ایک فقیر کو فدیہ کی رقم دے دی، وہ فقیر دوبارہ اسی شخص کو وہ رقم ہدیہ کردیتا ہے اور اس طرح وہ بار بار فدیہ ادا کرنا اور پھر اس فقیر کا وہ رقم ہدیہ کردینا جائز ہے یا نہیں؟ یہ حیلہ اس لیے کیا جاتا ہے کہ فدیہ کی رقم بہت زیادہ مقدار میں ہوتی ہے اور وہ شخص اتنی زیادہ رقم فدیہ میں نہیں دینا چاہتا، اس لیے بار بار اسی رقم کو اس حیلے سے ادا کر تا رہتا ہے، آیایہ صورت جائز ہے یا نہیں؟

جواب

 متعدد دنمازوں کا فدیہ ایک فقیر کو دیا جاسکتا ہے، جو صورت سائل نے ذکر کی ہے اسے ''حیلہ اسقاط''  کہا جاتا ہےاور “ حیلۂ اسقاط‘‘ بعض فقہاء نے ایسے شخص کے لیے تجویز فرمایا تھا جس کی کچھ نماز یں اور روزے وغیرہ اتفاقی طور پر فوت ہوگئے ہوں، پھر قضا کرنے کا موقع نہ ملا اور موت کے وقت فدیہ کی وصیت تو  کی ہو ، لیکن مرحوم نے اتنا ترکہ نہ چھوڑا جس کے ایک تہائی سے ان کے تمام فوت شدہ نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کیا جاسکے۔ 

ایسی صورت میں اگر ورثاء  اصحابِ استطاعت ہوں تو  اپنے مال سے مرحوم کی نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کردیں، اور اگر ورثاء  کے پاس بھی گنجائش نہ ہو تو فقہا ء نے حیلے کی گنجائش ذکر کی ہے، اور اس کی جائز صورت یہ ہے کہ:  ورثاء  فدیہ کی نیت سے کچھ رقم کسی غریب و نادار مستحقِ زکاۃ کو دے کر اس کو اس رقم کا اس طرح مالک بنادیں کہ اگر وہ مستحق رقم واپس کرنے کے بجائے خود استعمال کرلے تو ورثاء کو کوئی اعتراض نہ ہو  اور وہ مستحق شخص یہ سمجھتا ہو کہ اگر میں یہ رقم مرحوم کے ورثاء  کو واپس نہ کروں تو انہیں واپس لینے کا اختیار نہیں ہے، پھر وہ مستحق کسی قسم کے جبر  اور دباؤ کے بغیر اپنی خوشی سے وہ رقم ورثاء  کو واپس کردے اور پھر ورثاء  اسی مستحق کو یا کسی اور مستحق کو اسی طرح مذکورہ طریقے کے مطابق وہ رقم دے دیں اور وہ بھی اپنی خوش دلی سے  انہیں واپس کردے، اس طرح باربار  ورثاء  یہ رقم کسی مستحق کو  دیتے رہیں اور وہ اپنی خوشی و مرضی سے واپس کرتا رہے، یہاں تک کہ مرحو م کی قضا شدہ نمازوں کے فدیہ کی مقدار ادا ہوجائے تو اس طرح فدیہ ادا ہوجائے گا اور اب وہ رقم سب سے آخر میں جس نادار ومستحق شخص کو ملے گی، وہی اس رقم کا مالک ہوگا اور اسے ہر طرح اس رقم کو خرچ کرنے کا اختیار ہوگا، نیز آخر میں ورثاء  کا رقم کو آپس میں تقسیم کرنا یا کسی غنی ومال دار اور غیر مسکین کا اس رقم کو لینا جائز نہ ہوگا، اور نہ ہی  اس آخری مستحق شخص پر رقم کی واپسی کے لیے کسی قسم کا دباؤ وغیرہ ڈالنا درست ہوگا۔ 

ورثاء  کی ناداری کی بنا پر اور مالی گنجائش نہ ہونے کی صورت میں مذکورہ تفصیلی شرائط کے ساتھ حیلہ کرنے کی گنجائش ہے، اس کے علاوہ حیلہ اسقاط کی دیگر مروجہ صورتیں جائز نہیں۔ 

(تفصیل کے لیے دیکھیں : مفتی شفیع رحمہ اللہ کا رسالہ "حیلہ اسقاط" جو جواہر الفقہ کے نئے طبع کی جلد اول میں شامل ہے، اور نظام الفتاوی ص ۱۱۷ ج٦)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200401

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں