بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

فالج اور دماغ کے مریض کے لیے نماز کا حکم


سوال

میرے دادا 90 برس کے ہیں، اور وہ 29 مہینوں  سے فالج کی بیماری کی وجہ سے بستر پر پڑے ہیں، اور ان کا دماغ بھی سالم نہیں ہے، ان کے لیے نماز کا کیا حکم ہے؟ 

جواب

ایسا  شخص جس کی عقل قائم ہو اور ہوش وحواس بحال ہوں وہ نماز و  روزے کا مکلف رہتا ہے، جب تک اشارے سے نماز ادا کر سکتا ہو  اس پر نماز فرض رہے گی اور نہ پڑھنے کی صورت میں وصیت لازم ہو گی اور اگر اشارے سے پڑھنے کی بھی قدرت نہ رہے اور اسی مرض میں وفات ہوجائے (یعنی نماز قضا کرنے پر بھی قدرت حاصل نہ ہوئی ہو، خواہ اشاروں سے قدرت ہو) تو نہ قضا لازم ہو گی اور نہ ہی وصیت کرنا۔

اسی طرح اگر عقل ہی قائم نہ ہو اور وہ نماز روزے کا فرض ہونا ہی نہ سمجھتا ہو تو اس پر اتنے دن کی نماز  اور روزہ واجب نہیں ہے اور نہ ہی اس کی وصیت کرنا یا اس کی طرف سے فدیہ ادا کرنا لازم ہے۔

قضا واجب ہونے والی صورت میں اگر اس نے فدیہ کی ادائیگی کی وصیت کی ہو تو اس کے ترکے کے ایک تہائی میں سے وصیت پوری کی جائے گی، ایک نماز کا فدیہ ایک صدقہ فطر کی مقدار ہے، دن میں پنج وقتہ نمازوں کے ساتھ عشاء میں وتر کا بھی فدیہ دینا ہوگا، یعنی ایک دن کی نمازوں کی طرف سے چھ صدقہ فطر ادا کرنے ہوں گے، اور ایک روزے کا فدیہ ایک صدقہ فطر ہی ہوگا۔ 

اگر ایک تہائی ترکے سے وصیت پوری ہوجائے تو بہتر، اس سے زیادہ ادائیگی ورثاء کے ذمے واجب نہیں ہوگی، لیکن اگر میت نے وصیت نہ کی ہو، یا وصیت کی ہو لیکن اس کا مال فدیے کے لیے کافی نہ ہو، تو ورثہ کو چاہیے کہ بصورتِ گنجائش وہ اپنے میت پر احسان کرتے ہوئے اپنی طرف سے اس کا فدیہ ادا کردیں، امید ہے کہ اللہ پاک میت کی طرف سے قبول فرماکر بخشش فرمائیں گے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200718

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں