کسی غیر محرم کو حج کی مبارک باد دینے کے لیے جانا کیسا ہے ؟
اگر فتنے کا اندیشہ نہ ہو اور ضرورت کا تقاضا ہو تو عورت کا پردہ میں رہ کر کسی غیر محرم کو حج کی مبارک باد دینے کی گنجائش ہے، لازم نہیں ہے، البتہ بات نرم لہجے میں نہ کرے۔
قرآنِ کریم میں ہے:
{يا أيها النبي قل لأزواجك وبنٰتك ونساء المؤمنين يدنين عليهن من جلابيبهن ذٰلك أدنى أن يعرفن فلا يؤذين وكان الله غفورًا رحيمًا} [سورة الأحزاب، آيت: 59]
فتاویٰ شامی میں ہے:
"«وصوتها على الراجح، (قوله: وصوتها) معطوف على المستثنى يعني أنه ليس بعورة ح (قوله: على الراجح) عبارة البحر عن الحلية: أنه الأشبه. وفي النهر وهو الذي ينبغي اعتماده". (ج:1، ص: 406، ط: سعيد)
مراقي الفلاح شرح نور الإيضاحمیں ہے:
"وتقدم في الأذان أن صوتها عورة، وليس المراد كلامها، بل ما يحصل من تليينه وتمطيطه لايحل سماعه". (ج:1، ص: 91، ط: المكتبة العصرية)
مجموعة الفتاوى للكنويمیں ہے:
’’اور حق اس باب میں یہ ہے کہ مطلق عورت کی آواز ستر نہیں ہے، البتہ رفعِ صوت مع بلندی آواز وغیرہ ستر ہے ۔۔۔‘‘ (کتاب الصلاۃ، ج:1، ص: 216، ط: سعید)
امداد الفتاویٰ میں ہے:
’’عورتوں کو اجنبی مرد کے سامنے چہرہ کھولنا یا آواز سنانا وغیرہ:
الجواب: عورت حرۃ کو تمام اعضاء کا پردہ فرض ہے ۔۔۔ اور آواز میں اختلاف ہے، مگر صحیح یہ ہے کہ وہ عورۃ نہیں ہے۔ ۔۔۔‘‘ (باب الحظر والاباحۃ، ج: 4، ص: 197، ط: مکتبہ دارالعلوم) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144012200934
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن