بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 شوال 1445ھ 17 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کو چھونے سے حرمتِ مصاہرت کا حکم


سوال

1۔ زید کی خالہ لیٹی ہوئی تھی ، یہ اس کے آ گے جاکر بیٹھ گیا اس طرح کہ اس کی چھاتی اس کی کمر سے مس ہونے لگی،  کیا اس سے اس کی خالہ کی بیٹی اس پر حرام ہوگئی؟

2۔اسی طرح ایک بار زید نے خالہ کی چھاتی کو دیکھا اور ہاتھ سے منی خارج کی، کیا یہ صورت انزال والی بنے گی یا نہیں؟

جواب

(1)اگر کوئی شخص کسی عورت کو شہوت سے چھوتا  ہے تو اس عورت کے اصول (والدہ وغیرہ) و فروع (بیٹی وغیرہ) اُس مرد پر حرام ہونے کے لیے درج ذیل شرائط ہیں:

1.وہ عورت جسے شہوت سے چھوا گیا ہو وہ  مشتہاۃ (قابلِ شہوت) ہو، یعنی کم از کم نو سال کی ہو ۔

2.مس (چھونے) کے وقت یا  نظر (شرم گاہ کی طرف دیکھنے) کے وقت ہی شہوت پائی جائے ، اگر اس وقت شہوت نہیں تھی، بلکہ بعد میں شہوت ابھری تو حرمت ثابت نہیں ہوگی۔

3.شہوت پیدا ہونے کی کوئی معتبر علامت پائی جائے، اور اگر پہلے سے شہوت موجود ہو تو چھوتے وقت یا شرم گاہ کو دیکھتے وقت شہوت مزید بڑھ جائے۔  بصورتِ دیگر حرمت ثابت نہیں ہوگی۔

4.شہوت کے ساتھ چھونا اس طور پر ہو کہ درمیان میں کوئی کپڑا وغیرہ حائل نہ ہو اور اگر درمیان میں کوئی کپڑا حائل ہوتو  اتناباریک ہوکہ جسم کی حرارت پہنچنے سے مانع نہ ہو،  ورنہ حرمت ثابت نہیں ہوگی۔

5.شہوت کے ساتھ چھونے، بوسہ دینے یا شرم گاہ کو دیکھنے کی وجہ سے انزال نہ ہوا ہو ، اگر مذکورہ صورتوں میں انزال ہوجائے تو حرمتِ مصاہرت ثابت نہ ہوگی۔

لہذا اگرزید اس قسم کے چھونے کااقرار کرتاہے اور مذکورہ شرائط پائی جاتی ہیں توزید کے لیے اپنی خالہ کی بیٹی سے نکاح حرام ہو گا۔

(2)دیکھنے سے حرمت اس وقت ثابت ہوتی ہے جب عورت کی فرج داخل کو شہوت کے ساتھ دیکھے ورنہ حرمت ثابت نہیں ہوتی۔

فتاوی عالمگیری میں ہے :

"ویشترط أن تکون المرأة مشتهاةً ، والفتویٰ علی أن بنت تسع محل الشهوة لا ما دونها، کذا في معراج الدرایة. وحکي عن الشیخ الإمام أبی بکر أنه کان یقول: ینبغي للمفتي أن یفتي في السبع والثماني أنها لاتحرم، إلا أن بالغ السائل أنها عبلة ضخمة جسیمة، فحینئذٍ یفتی بالحرمة، کذا في الذخیرة والمضمرات". ( الفتاوی الهندية، ص۲۷۵ ، ج۱ )

"ثم المسّ إنما یوجب حرمة المصاهرة إذا لم یکن بینهما ثوبٌ ، أما إذا کان بینهما ثوب فإن کان صفیقاً لا یجد الماس حرارة الممسوس لا تثبت حرمة المصاهرة وإن انتشرت آلته بذلك، وإن کان رقیقاً بحیث تصل حرارة الممسوس إلی یده تثبت، کذا في الذخیرة". (الفتاوى الهندية، ص۳۷۵ ، ج۱ )

وفیه أیضاً:

"والشهوة تعتبر عند المس والنظر حتیٰ لو وجدا بغیر شهوة ثم اشتهیٰ بعد الترك لاتتعلق به الحرمة". ( الفتاوى الهندية، ص۲۷۵ ، ج۱ )

مجمع الانہر میں ہے :

"والمختار أن لاتثبت بناءً علی أن الأمر موقوف حال المسّ إلی ظهور عاقبته، إن ظهر أنه لم ینزل حرمت، وإلا فلا، کما في الفتح". ( مجمع الأنهر في شرح ملتقی الأبحر، ص۳۲۸ ، ج۱)

فتاوی شامی میں ہے :

"(وأصل ماسته وناظرة إلى ذكره والمنظور إلى فرجها) المدور (الداخل) ولو نظره من زجاج أو ماء هي فيه (وفروعهن ( مطلقًا، والعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهما، وحدها فيهما تحرك آلته أو زيادته، به يفتى". (3/33) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200043

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں