بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت میکہ میں ہو اور شوہر کا انتقال ہوجائے تو عدت کہاں گزارے؟


سوال

ایک عورت جو اپنے شوہر کے ساتھ لاہور میں مستقل رہائش پذیر تھی اور دونوں میاں بیوی کسی کام سے ایبٹ آباد عورت کے میکے آئے اور اس دوران شوہر کا انتقال ہو گیا، اب عورت عدت کہاں گزارے گی؟ شوہر کے مستقل گھر میں یا اپنے میکے میں؟ اگر شوہر کے گھر گزارے گی تو مسافتِ شرعی طے کرنا پڑے گا،اور میکے میں عورت عدت گزارنانہیں چاہتی  بوجہ والدین کے فوت ہوجانے کی وجہ سے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  عورت جب اپنے شوہر کے ساتھ ایبٹ آباد  اپنے میکہ آئی اور اس دوران شوہر کا انتقال ہوگیا، اور ایبٹ آباد سے شوہر کا گھر (لاہور) مسافتِ سفر پر ہے تو ایسی صورت میں عورت کے لیے یہیں ایبٹ آباد  میں اپنے میکہ میں عدت گزارنا لازم ہے، ہاں اگر والدین کے نہ ہونے کی وجہ سے وہاں عزت وآبرو  یا جان مال کی ہلاکت کا خوف ہو یا  نامحرموں سے  پردے وغیرہ کا مسئلہ ہو  تو کسی محرم کے ساتھ واپس اپنے شوہر کے گھر آکر عدت گزانے کی گنجائش ہوگی۔

الدر المختار علی تنویر الابصار (3/ 538):
"(أبانها، أو مات عنها في سفر) ولو في مصر (وليس بينها) وبين مصرها مدة سفر رجعت ولو بين مصرها مدته وبين مقصدها أقل مضت (وإن كانت تلك) أي مدة السفر (من كل جانب) منهما ولا يعتبر ما في ميمنة وميسرة، فإن كانت في مفازة (خيرت) بين رجوع ومضي (معها ولي، أو لا في الصورتين، والعود أحمد) لتعد في منزل الزوج (و) لكن (إن مرت) بما يصلح للإقامة كما في البحر وغيره. زاد في النهر: وبينه وبين مقصدها  سفر (أو كانت في مصر) أو قرية تصلح للإقامة (تعتد ثمة) إن لم تجد محرما اتفاقا، وكذا إن وجدت عند الإمام (ثم تخرج بمحرم) إن كان".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 536):
"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه.
(قوله: في بيت وجبت فيه) هو ما يضاف إليهما بالسكنى قبل الفرقة ولو غير بيت الزوج كما مر آنفا، وشمل بيوت الأخبية كما في الشرنبلالية. (قوله: ولا يخرجان) بالبناء للفاعل، والمناسب " تخرجان " - بالتاء الفوقية -؛ لأنه مثنى المؤنث الغائب أفاده ط. (قوله: إلا أن تخرج) الأولى الإتيان بضمير التثنية فيه وفيما بعده ط، وشمل إخراج الزوج ظلما، أو صاحب المنزل لعدم قدرتها على الكراء، أو الوارث إذا كان نصيبها من البيت لا يكفيها بحر: أي لا يكفيها إذا قسمته لأنه لا يجبر على سكناها معه إذا طلب القسمة، أو المهايأة ولو كان نصيبها يزيد على كفايتها.
(قوله: أو لا تجد كراء البيت) أفاد أنها لو قدرت عليه لزمها من مالها، وترجع به المطلقة على الزوج إن كان بإذن الحاكم كما مر. (قوله: ونحو ذلك) منه ما في الظهيرية: لو خافت بالليل من أمر الميت والموت ولا أحد معها لها التحول - والخوف شديد - وإلا فلا. (قوله: فتخرج) أي معتدة الوفاة". 
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201325

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں