بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت سجدہ کس طرح کرے؟


سوال

میں چند سالوں سے سعودی عرب میں مقیم ہوں، یہاں خواتین نماز میں مردوں کی طرح سجدہ کرتی ہیں، وضاحت فرمائیں کہ خواتین کے لیے کس طرح سجدہ کرنے کا حکم ہے؟

 

جواب

مردوں اور خواتین کی نماز میں سجدہ سمیت اور بھی  متعدد مواقع میں فرق ہے،  اور یہ فرق احادیث سے ثابت ہے، خود نبی کریمﷺ نے مردو عورت کی نماز میں فرق بیان کیا ہے ، حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی اِس فرق کا لحاظ رکھا کرتےاور بیان کیا کرتے تھے اور یہی تابعین ، تبعِ تابعین ، اَسلاف اور اُمت کے ائمہ مجتہدین کا مسلک تھا جیسا کہآگےآنے والی احادیث سے یہ واضح ہوجائے گا ۔

مرد و عورت کی نماز میں عمومی فرق پر مشتمل احادیث:

’’عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، صَاحِبِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:خَيْرُ صُفُوفِ الرِّجَالِ الْأَوَّلُ، وَخَيْرُ صُفُوفِ النِّسَاءِ الصَّفُّ الْآخِرُ، وَكَانَ يَأْمُرُ الرِّجَالَ أَنْ يَتَجَافَوْا فِي سُجُودِهِمْ، وَيَأْمُرُ النِّسَاءَ يَنْخَفِضْنَ فِي سُجُودِهِنَّ، وَكَانَ يَأْمُرُ الرِّجَالَ أَنْ يَفْرِشُوا الْيُسْرَى، وَيَنْصِبُوا الْيُمْنَى فِي التَّشَهُّدِ، وَيَأْمُرُ النِّسَاءَ أَنْ يَتَرَبَّعْنَ وَقَالَ:يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ! لَا تَرْفَعْنَ أَبْصَارَكُنَّ فِي صَلَاتِكُنَّ تَنْظُرْنَ إِلَى عَوْرَاتِ الرِّجَالِ‘‘. (سنن کبریٰ بیہقی:3198)
ترجمہ: صحابیِ رسول حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مَروی ہے کہ آپﷺنے اِرشاد فرمایا: مردوں کی سب سے بہترین صف پہلی اور عورتوں کی سب سے بہترین آخری ہے، آپﷺمردوں کوکھل کر سجدہ کرنے کا حکم دیتے تھے اور عورتوں کو اس بات کا حکم دیا کرتے تھے کہ وہ سمٹ کر سجدہ کریں، اور آپﷺمردوں کو اِس بات کا حکم دیاکرتے تھےکہ وہ تشہد کی حالت میں اپنے بائیں پاؤں کو بچھاکر دایاں پاؤں کھڑا کریں، اور عورتوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ وہ سمٹ کر(یعنی تورّک کےساتھ زمین پر سرین رکھ کر)بیٹھیں، اور فرماتے : اے عورتوں کی جماعت! تم لوگ نماز میں اپنی آنکھوں کو مت اٹھایا  کرو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری نگاہ مردوں کے ستر پر پڑجائے۔
’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ صَلَاةِ الْمَرْأَةِ؟ فَقَالَ: «تَجْتَمِعُ وَتَحْتَفِرُ»‘‘. (مصنّف ابن ابی شیبہ:2778 )
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک مرتبہ عورت کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا ، تو آپ نے ارشاد فرمایا” تَجْتَمِعُ وَتَحْتَفِرُ “ خوب اچھی طرح اکٹھے ہوکر اور سمٹ کر نما زپڑھے۔
’’عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ قَالَ: تَجْتَمِعُ الْمَرْأَةُ إِذَا رَكَعَتْ تَرْفَعُ يَدَيْهَا إِلَى بَطْنِهَا، وَتَجْتَمِعُ مَا اسْتَطَاعَتْ، فَإِذَا سَجَدَتْ فَلْتَضُمَّ يَدَيْهَا إِلَيْهَا، وَتَضُمَّ بَطْنَهَا وَصَدْرَهَا إِلَى فَخِذَيْهَا، وَتَجْتَمِعُ مَا اسْتَطَاعَتْ‘‘. (عبد الرزاق:5069 )
ترجمہ:حضرت ابن جریج حضرت عطاء سے نقل کرتے ہیں کہ اُنہوں نے اِرشاد فرمایا: عورت رکوع کرتے ہوئے سمٹ کر رکوع کرے گی؛ چناں چہ اپنے ہاتھوں کواُٹھاکر اپنے پیٹ کے ساتھ ملالے گی، اور جتنا ہوسکے سمٹ کررکوع کرے گی، پھر جب سجدہ کرے تو اپنے ہاتھوں کو اپنے (جسم کے)ساتھ ملالے گی، اور اپنے پیٹ اور سینہ کو اپنی رانوں کے ساتھ ملالے گی اور اور جتنا ہوسکے سمٹ کر سجدہ کرے گی۔

اِس حدیث سے عورت کی نماز کا اصول یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس کی پوری نماز میں شروع سے آخر تک اِس بات کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ وہ نماز میں زیادہ سے زیادہ سمٹ کر ارکان کی ادائیگی کرے، چناں چہ حدیثِ مذکور میں بار بار ” وَتَجْتَمِعُ مَا اسْتَطَاعَتْ “ کے الفاظ اِسی ضابطہ کو بیان کررہے ہیں ۔خلاصہ یہ ہوا کہ مرد اور عورت کی نماز کا طریقہ ایک جیسا نہیں ہے، بلکہ کئی جگہوں میں فرق ہے جن میں سے ایک سجدہ بھی ہے، چناں چہ مرد کے لیے سجدہ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ:

۱-تمام اعضا جداجداہوں، ہاتھ بغلوں سے اوررانیں پیٹ سے الگ ہو ں۔
۲-سرین کاحصہ اوپرکی طرف ہو۔
۳-ہاتھ زمین پرنہ بچھائے ؛بل کہ اٹھائے رکھے۔
۴-پیروں کے پنجے کھڑے کرکے ان کی انگلیاں قبلہ کی طرف کردے۔
اورعورت ان تمام امورمیں مرد سے مختلف ہے؛ چناں چہ اس کو چاہیے کہ وہ سجدہ اس طرح کرے کہ :
۱-اس کے تمام اعضا ملے ہوئے ہوں، ہاتھ بغلوں سے ،رانیں پیٹ سے ملی ہوئی ہوں۔
اس کی وجہ علامہ حصکفی رحمہ اللہ نے درمختارمیں یہ لکھی ہے کہ اس میں عورت کے لیے زیادہ پردہ ہے۔
۲-سرین کے حصے کواوپرکی طرف نہ اٹھائے؛ بل کہ اپنے جسم کوحتی الامکان زمین سے ملاکر پست رکھے ۔

۳-اپنے ہاتھوں کوزمین پر بچھاکر رکھے، مردکی طرح اٹھاکرنہ رکھے ۔
۴-اپنے دونوں پیرایک طرف(دا ہنی طرف کو) نکال دے اوراپنے پیروں کوکھڑا نہ کرے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 504):

’’(والمرأة تنخفض) فلا تبدي عضديها (وتلصق بطنها بفخذيها)؛ لأنه أستر، وحررنا في الخزائن: أنها تخالف الرجل في خمسة وعشرين.

 (قوله: فلا تبدي عضديها) كتب في هامش الخزائن أن هذا رد على الحلبي، حيث جعل الثاني تفسيراً للانخفاض مع أن الأصل في العطف المغايرة تنبه اهـ(قوله: وحررنا في الخزائن إلخ)وذلك حيث قال: تنبيه ذكر الزيلعي: أنها تخالف الرجل في عشر، وقد زدت أكثر من ضعفها:ترفع يديها حذاء منكبيها، ولا تخرج يديها من كميها، وتضع الكف على الكف تحت ثديها، وتنحني في الركوع قليلاً، ولا تعقد ولا تفرج فيه أصابعها بل تضمها وتضع يديها على ركبتيها، ولا تحني ركبتيها، وتنضم في ركوعها وسجودها، وتفترش ذراعيها، وتتورك في التشهد وتضع فيه يديها تبلغ رءوس أصابعها ركبتيها، وتضم فيه أصابعها، وإذا نابها شيء في صلاتها تصفق ولا تسبح، ولا تؤم الرجل، وتكره جماعتهن، ويقف الإمام وسطهن، ويكره حضورها الجماعة.

وتؤخر مع الرجال، ولا جمعة عليها، لكن تنعقد بها، ولا عيد، ولا تكبير تشريق، ولا يستحب أن تسفر بالفجر، ولا تجهر في الجهرية، بل لو قيل بالفساد بجهرها لأمكن بناء على أن صوتها عورة. وأفاده الحدادي أن الأمة كالحرة إلا في الرفع عند الإحرام فإنها كالرجل. اهـ.

أقول: وقوله ولا تحني ركبتيها صوابه وتحني بدون لا كما قدمناه عن المعراج عند قول الشارح في الركوع ويسن أن يلصق كعبيه، وقوله تبلغ رءوس أصابعها ركبتيها مبني على القول بأن الرجل يضع يديه في التشهد على ركبتيه. والصحيح أنهما سواء كما سنذكره، وقوله لكن تنعقد بها، صوابه لكن تصح منها إذ لاعبرة بالنساء والصبيان في جماعة الجمعة والشرط فيهم ثلاثة رجال، وقدمنا أيضاً عن المعراج عن شرح الوجيز أن الخنثى كالمرأة.

وحاصل ما ذكره أن المخالفة في ست وعشرين. وذكر في البحر أنها لا تنصب أصابع القدمين كما ذكره  في المجتبى، ثم هذا كله فيما يرجع إلى الصلاة، وإلا فالمرأة تخالف الرجل في مسائل كثيرة مذكورة في إحكامات الأشباه فراجعها‘‘.فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200745

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں