بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عوام کو صرف فرض نماز پڑھنے کی ترغیب دینا اور سنتوں کو اور ٹائم سے تعبیر کرنا


سوال

ایک مولاناصاحب جو ماشاء اللہ مکمل عالمِ دین ہیں، وہ  لوگوں  کوجب نمازکی دعوت دیتے ہیں  توصرف فرض پڑھنے  کاکہتے ہیں ، اور سنتوں کی مثال اوور ٹائم سے دیتےہیں اورکہتے ہیں کہ اصل نماز فرض ہی ہے۔

جواب

صرف فرض نماز پر اکتفا کرنا اور واجب اور سنتِ مؤکدہ کو چھوڑ دینا درست نہیں۔ فرض نماز تو فرض ہے، اور وتر کی نماز واجب ہے، ان دونوں کو چھوڑنا تو کبیرہ گناہ ہے، اگر وقت پر نہیں پڑھی تو بعد میں قضا پڑھنا لازم ہے، ان کا مستقل تارک فاسق ہے۔  سنتِ مؤکدہ کااہتمام کرناواجب کے قریب ہے، بلاکسی عذر کے سنتِ مؤکدہ کاترک بھی جائز نہیں ہے،  جوشخص بلاکسی عذر کے سنتِ مؤکدہ ترک کرتاہے وہ گناہ گار اور لائقِ ملامت ہے، اور اللہ تعالٰی کے  یہاں درجات سے محروم ہے، اور رسول اللہ ﷺ کی شفاعت سے محرومی کا اندیشہ ہے، یہاں تک کہ فقہاءِ کرام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ان سنتوں کو صحیح تو سمجھتا ہے، لیکن بلاعذر سنتِ مؤکدہ کو چھوڑنے کی عادت بنالیتا ہے تو یہ گناہ گار ہوگا، لیکن اگر کوئی شخص ان سنتوں کو حق نہ سمجھتے ہوئے چھوڑ دے تو  یہ عمل انسان کو کفر تک پہنچادے گا۔

البتہ اگر کوئی عذر ہو مثلاً: وقت تنگ ہے اور صرف فرض نماز ادا کی جاسکتی ہویاکوئی ضرورت  تو اس وقت سنتوں کو چھوڑ سکتاہے۔

 باقی سنتِ غیر مؤکدہ اور نوافل میں پڑھنے اور نہ پڑھنے میں اختیار ہے، اگر کوئی پڑھے گا تو اسے ثواب ملے گا اور نہ پڑھنے پر کوئی گناہ نہیں ہوگا، تاہم انہیں بالکل نہ پڑھنے کی عادت بنالینا بھی مناسب نہیں۔

البتہ اگر کوئی شخص بالکل ہی نماز نہ پڑھتا ہو، تو اس کو نماز پر لانے کے لیے اگر دعوتی اسلوب پر ابتدا میں صرف فرض پر لایا جائے اور اس کو اس کی ترغیب دی جائے اور جب وہ فرض پڑھنا شروع کردے تو پھر دھیرے دھیرے اسے سنن کی ترغیب دی جائے تو  دعوتی اسلوب کے طور پر موقع محل کی مناسبت سے یہ طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے، لیکن اس میں باقاعدہ طور پر سنتوں کو چھوڑنے کی ترغیب دینا اور سننِ مؤکدہ کو انتہائی کم درجہ کا باور کرانا اور اسے اور ٹائم قراردے کر اس کی اہمیت گھٹانا کسی طور پر درست نہیں ہے، لہذا اس طریقہ سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اگر دعوت و اصلاح کی حکمت کا تقاضا ہو تو مثبت انداز میں ابتداءً صرف فرائض کی ترغیب دی جائے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(وسن) مؤكدًا (أربع قبل الظهر و) أربع قبل (الجمعة و) أربع (بعدها بتسليمة) فلو بتسليمتين لم تنب عن السنة، ولذا لو نذرها لايخرج عنه بتسليمتين، وبعكسه يخرج (وركعتان قبل الصبح وبعد الظهر والمغرب والعشاء) شرعت البعدية لجبر النقصان، والقبلية لقطع طمع الشيطان.

(قوله: وسن مؤكدًا) أي استنانًا مؤكدًا؛ بمعنى أنه طلب طلبًا مؤكدًا زيادةً على بقية النوافل، ولهذا كانت السنة المؤكدة قريبةً من الواجب في لحوق الإثم، كما في البحر، ويستوجب تاركها التضليل واللوم، كما في التحرير: أي على سبيل الإصرار بلا عذر، كما في شرحه". (2/12، 13، باب الوتر والنفل، ط:سعید)

وفیہ  ایضا:

"ترك السنن، إن رآها حقًّا أثم، وإلا كفر". (2/21، باب الوتر والنفل، ط:سعید)          

المحيط البرهاني  میں ہے :

"رجل ترك سنن الصلوات الخمس إن لم ير السنن حقاً فقد كفر، وإن رأى السنن حقاً، منهم من قال: لايأثم، والصحيح أنه يأثم. وفي «النوازل»: إذا ترك السنن، إن تركها بعذر فهو معذور، وإن تركها بغير عذر لايكون معذوراً، ويسأله الله تعالى عن تركها". (1 / 446، الفصل الحادی والعشرون فی  التطوع قبل الفرض، ط: دارالکتب العلمیہ، بیروت)

البحرالرائق میں ہے:

سنة مؤكدة قوية قريبة من الواجب، حتى أطلق بعضهم عليه الوجوب، ولهذا قال محمد: لو اجتمع أهل بلد على تركه قاتلناهم عليه، وعند أبي يوسف يحبسون ويضربون وهو يدل على تأكده لا على وجوبه". [3/6]

         کفایت المفتی میں  ہے:

’’سننِ مؤکدہ  کا تارک علی الدوام گناہ گار  اور تارک  علی الاستخفاف کافر ہے،  اور اگر ترک  احیاناً  یا ضرورۃً یا کسی عذر سے ہوجائے تو جائز ہے‘‘۔(3/ 319، سنتِ مؤکدہ کے تارک کا حکم، ط: دارالاشاعت) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200847

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں