بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عمرہ کے بعد حلق کیے بغیر اپنے شہر آکر حلق کرانا


سوال

عمرہ کے بعد اگر کوئی شخص حلق کرائے بغیر کپڑے پہن کر اپنے شہر چلا جائے اور وہاں جا کر اس کو پتا چلے کہ حلق کرانا تھا اور وہیں حلق کروا دے تو کیا اس پر کتنے دم لازم ہوں گے؟

جواب

عمرہ کے ارکان ادا  کرنے کے بعد حلق (سرمنڈوانے) یا قصر (کم از کم ایک چوتھائی سر کے بال کم از کم ایک پورے کے برابر کاٹنے) کےبغیر  آدمی احرام  کی پابندیوں سے نہیں نکلتا؛ لہٰذا اگر مذکورہ شخص نے چوتھائی سر کے بال ایک پورے کے برابر یا اس سے زیادہ نہیں کاٹے تھے تو وہ شخص احرام سے نہیں نکلا، پھر اگر اس نے حلق سے پہلے ممنوعاتِ احرام (مثلاًسلے ہوئے   کپڑے پہننا، خوشبو لگانا  وغیرہ) کا ارتکاب کرلیا تو اس پر ایک دم لازم ہوگا، اور حرم کی حدود سے باہر حلق کرنے کی صورت میں دوسرا دم بھی لازم ہوگا، اور یہ دونوں دم حدودِ حرم میں ذبح کرنا لازم ہوں گے، خواہ خود کرے یا کسی کو اس کا وکیل بنادے، اور  اس کا عمرہ ادا ہوجائے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

’’(أو حلق في حل بحج) في أيام النحر، فلو بعدها فدمان (أو عمرة) لاختصاص الحلق بالحرم.

(قوله: أو حلق في حل بحج أو عمرة) أي يجب دم لو حلق للحج أو العمرة في الحل؛ لتوقته بالمكان، وهذا عندهما، خلافاً للثاني، (قوله: في أيام النحر) متعلق بحلق بقيد كونه للحج، ولذا قدمه على قوله أو عمرة، فيتقيد حلق الحاج بالزمان أيضاً، وخالف فيه محمد، وخالف أبو يوسف فيهما، وهذا الخلاف في التضمين بالدم لا في التحلل؛ فإنه يحصل بالحلق في أي زمان أو مكان، فتح. وأما حلق العمرة فلا يتوقت بالزمان إجماعاً، هداية. وكلام الدرر يوهم أن قوله: في أيام النحر قيد للحج والعمرة، وعزاه إلى الزيلعي، مع أنه لا إيهام في كلام الزيلعي كما يعلم بمراجعته، (قوله: فدمان) دم للمكان ودم للزمان، ط، (قوله: لاختصاص الحلق) أي لهما بالحرم وللحج في أيام النحر، ط‘‘.  (2/554، باب الجنایات، ط: سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200043

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں