بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عمرہ میں سر کے بال ایک پور سے کم ہونے کی صورت میں مشین لگانے کا حکم


سوال

میں نے چند روز قبل عمرہ کیا اور مشین سے بال کٹوالیے، کل دوبارہ عمرہ کیا اور پھر مشین سے بال کٹوائے، اگرچہ اس دفعہ باریک مشین لگوائی ، پھر احرام کھول لیا، آج بوقتِ عصر مسائل پڑھتے ہوئے مجھ پر منکشف ہوا کہ اگر بالوں کی لمبائی انگلی کی ایک تہائی سے کم ہو تو مشین نہیں لگوا سکتے، بلکہ استرا ہی لگوانا ہو گا، اس وقت مجھے احرام کھولے قریب چوبیس گھنٹے ہو چکے تھے، میں عشاء کے بعد حرم سے واپس آیا تو کسی کے مشورے پر پھر احرام کے کپڑے باندھ کر گیا اور مکمل حلق کروا آیا،اور پھر احرام کھول لیا۔ کیا اس میں مجھ پر دم واجب ہو گیا۔ اور اس کا طریقہ کیا ہو گا؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں  جب  آپ کے بال انگلی کے پورے سے  چھوٹے تھے  تو آپ کے لیے استرے سے سر منڈوانا  لازم تھا، قصر کروانا جائز  نہیں تھا. اب آپ پر ایک دم دینا لازم ہے۔ مذکورہ صورت میں دوبارہ چادر باندھ کر حلق کرانے سے دم ساقط نہیں ہوگا۔ 

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإذا جاء وقت الحلق ولم يكن على رأسه شعر بأن حلق قبل ذلك أو بسبب آخر ذكر في الأصل أنه يجري الموسى على رأسه؛ لأنه لو كان على رأسه شعر كان المأخوذ عليه إجراء الموسى، وإزالة الشعر فما عجز عنه سقط وما لم يعجز عنه يلزمه، ثم اختلف المشايخ في إجراء الموسى أنه واجب أو مستحب، والأصح أنه واجب، هكذا في المحيط".(1/231، الباب الرابع فیما یفعلہ المحرم  بعد الاحرام ، ط: رشیدیہ)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"وأما التقصير فالتقدير فيه بالأنملة؛ لما روينا من حديث عمر - رضي الله عنه -، لكن أصحابنا قالوا: يجب أن يزيد في التقصير على قدر الأنملة؛ لأن الواجب هذا القدر من أطراف جميع الشعر، وأطراف جميع الشعر لايتساوى طولها عادةً بل تتفاوت فلو قصر قدر الأنملة لايصير مستوفياً قدر الأنملة من جميع الشعر بل من بعضه، فوجب أن يزيد عليه حتى يستيقن باستيفاء قدر الواجب فيخرج عن العهدة بيقين". (2 / 141، فصل مقدار واجب الحلق والتقصير، ط: سعید)             

        فتاوی شامی میں ہے:

"(أو حلق في حل بحج) في أيام النحر، فلو بعدها فدمان (أو عمرة) لاختصاص الحلق بالحرم.

(قوله: أو حلق في حل بحج أو عمرة) أي يجب دم لو حلق للحج أو العمرة في الحل لتوقته بالمكان، وهذا عندهما خلافاً للثاني (قوله: في أيام النحر) متعلق بحلق بقيد كونه للحج، ولذا قدمه على قوله: أو عمرة فيتقيد حلق الحاج بالزمان أيضاً، وخالف فيه محمد، وخالف أبو يوسف فيهما، وهذا الخلاف في التضمين بالدم لا في التحلل فإنه يحصل بالحلق في أي زمان أو مكان فتح. وأما حلق العمرة فلايتوقت بالزمان إجماعاً، هداية، وكلام الدرر يوهم أن قوله: في أيام النحر قيد للحج والعمرة، وعزاه إلى الزيلعي مع أنه لا إيهام في كلام الزيلعي كما يعلم بمراجعته (قوله: فدمان) دم للمكان ودم للزمان ط (قوله: لاختصاص الحلق) أي لهما بالحرم وللحج في أيام النحر ط". (2/554، باب الجنایات، ط: سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201082

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں