بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

علم نجوم کا حکم


سوال

 کیاعلمِ  نجوم سیکھناجائزہے یانہیں؟ اوراگرجائزہے توکن شرائط کےساتھ؟

جواب

علمِ  نجوم  (یعنی ستاروں اور ان کی گردش نیز  اس کے نتیجے میں کائنات کے نظام میں رونما ہونے والے واقعات کا علم) سے دو کاموں میں مدد لی جاتی ہے، ایک حساب میں اور دوسرا استدلال میں۔

علمِ نجوم سے شرعی اَحکام میں مدد لینا مطلوب و مستحسن ہے،  مثلاً نماز کے اوقات معلوم کرنا، قبلہ کا رخ معلوم کرنا وغیرہ۔ علمِ نجوم سے ضروریات پوری کرنے کے لیے یا سہولت پیدا کرنے کے لیے مختلف تجربہ کرنا، اور ان تجربوں کی روشنی میں استدلال کرنا بھی ایسے ہی جائز ہے، جیسے ایک طبیب کا صحت و مرض  کی تفصیلات معلوم کرنے کے لیے انسانی نبض  سے تجربہ کرکے استدلال کرنا جائز ہے۔

البتہ علمِ  نجوم کو دنیوی چیزوں یا واقعات میں مؤثرِ  حقیقی سمجھنا یا اس طور پر استعمال کرنا جس سے لوگوں کے عقیدے خراب ہونے کا اندیشہ ہو، یہ ناجائز ہے۔

حاصل یہ ہے کہ علمِ  نجوم کو شرعی اَحکام کی حد تک سیکھنا مطلوب و مستحسن ہے، دنیوی کاموں  کے لیے سیکھنا مباح و جائز ہے،  بشرطیکہ عقیدہ کی خرابی کا اندیشہ نہ ہو۔ اور  اگر عقیدہ کی خرابی کا اندیشہ ہو  اور ستاروں کی تاثیر کو ذاتی سمجھے  یا قطعی سمجھتے ہوئے امور کی نسبت ان کی طرف  کرے تو ناجائز اور حرام ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 43):
"(قوله: والتنجيم) هو علم يعرف به الاستدلال بالتشكلات الفلكية على الحوادث السفلية. اهـ. ح. وفي مختارات النوازل لصاحب الهداية أن علم النجوم في نفسه حسن غير مذموم، إذ هو قسمان: حسابي وإنه حق، وقد نطق به الكتاب. قال الله تعالى - {الشمس والقمر بحسبان} [الرحمن: 5]- أي سيرهما بحساب. واستدلالي بسير النجوم وحركة الأفلاك على الحوادث بقضاء الله تعالى وقدره، وهو جائز كاستدلال الطبيب بالنبض من الصحة والمرض ولو لم يعتقد بقضاء الله تعالى أو ادعى الغيب بنفسه يكفر، ثم تعلم مقدار ما يعرف به مواقيت الصلاة والقبلة لا بأس به. اهـ. وأفاد أن تعلم الزائد على هذا المقدار فيه بأس بل صرح في الفصول بحرمته وهو ما مشى عليه الشارح. والظاهر أن المراد به القسم الثاني دون الأول؛ ولذا قال في الإحياء: إن علم النجوم في نفسه غير مذموم لذاته إذ هو قسمان إلخ ثم قال ولكنه مذموم في الشرع. وقال عمر: تعلموا من النجوم ما تهتدوا به في البر والبحر ثم امسكوا، وإنما زجر عنه من ثلاثة أوجه:
أحدها: أنه مضر بأكثر الخلق، فإنه إذا ألقى إليهم أن هذه الآثار تحدث عقيب سير الكواكب وقع في نفوسهم أنها المؤثرة.
وثانيها: أن أحكام النجوم تخمين محض، ولقد كان معجزة لإدريس - عليه السلام - فيما يحكى وقد اندرس.
وثالثها: أنه لا فائدة فيه، فإن ما قدر كائن والاحتراز منه غير ممكن اهـ ملخصاً".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201279

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں