بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

علماء کرام کے لیے ”مولانا“ کا لفظ استعمال کرنا


سوال

ہمارے یہاں ”مولانا“ عموماً علماء کے ساتھ لکھا جاتا ہے، میں عرب میں رہتا ہوں اور یہاں اس کو صحیح نہیں مانتے،  کیوں کہ یہ صرف اللہ کے ساتھ مخصوص ہے، اسی طرح ہم درود میں بھی محمد ﷺ کے ساتھ ”مولانا“ استعمال کرتے ہیں، کیا یہ صحیح ہے؟

 

جواب

’’مولیٰ‘‘ فصیح عربی زبان کا لفظ ہے جس کا استعمال قرآنِ مجید، احادیثِ مبارکہ اورکلامِ عرب میں موجودہے، علماءِ عربیت نے اس کے پچاس سے زائد معانی بیان کیے ہیں، عام لغات میں بھی اس کے پندرہ سترہ معانی بآسانی دست یاب ہیں، مثلاً : (1)   پروردگار ( 2 ) مالک آقا ( 3 ) کسی کام کا منتظم یا انجام دہندہ ( 4 ) مخلص دوست ( 5 ) ساتھی رفیق ( 6 ) معاہد، حلیف ( 7 ) آنے والا مہمان ( 8 ) پڑوسی (9) شریک، ساجھی ( 10 ) داماد ( 11 ) باپ کی طرف سے رشتہ دار، جیسے: چچا یا چچا زاد بھائی ( 12 ) انعام دینے والا ( 13 ) انعام دیا جانے ولا ( 14 ) آزاد کردہ غلام ( 15 ) غلام ( 16 ) تابع، پیرو ( 17 ) غلام آزاد کرنے والا ج : مَوَالٍ ۔(القاموس الوحید)

 اللہ جل شانہ نے قرآنِ مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نسبت کرکے اپنے، جبریلِ امین اور  نیک مسلمانوں کے لیے یہ لفظ استعمال فرمایاہے،

چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: { إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ } [التحريم: 4]

 ترجمہ :   اے (پیغمبر کی) دونوں بیبیو!  اگر تم اللہ کے سامنے تو بہ کرلو تو تمہارے دل مائل ہورہے ہیں، اور اگر (اسی طرح) پیغمبر کے مقابلہ میں تم دونوں کا روائیاں کرتی رہیں تو (یاد رکھو کہ) پیغمبر کا رفیق اللہ ہے اور جبرئیل (علیہ السلام) ہے اور نیک مسلمان ہیں اور (ان کے علاوہ) فرشتے (آپ کے) مددگار ہیں۔ (از بیان القرآن)

 یعنی بے شک اللہ تعالیٰ اورجبریل اور نیک اہلِ ایمان، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ’’مولیٰ‘‘ ہیں۔

یہاں ایک ہی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے بھی، فرشتے کے لیے بھی اور خواص اہلِ ایمان(یعنی نیکوکاروں)کے لیے بھی یہ لفظ استعمال فرمایاہے، جس سے معلوم ہواکہ جبریلِ امین اور تمام نیکو کار اہلِ ایمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مولیٰ (رفیق، دوست، ساتھی)ہیں، اور یہ لقب انہیں خود بارگاہِ ایزدی سے عطاہواہے۔ اس لیے لفظِ ’’مولیٰ‘‘ صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔

اسی  لفظ کے ساتھ "نا" ضمیر بطورِ مضاف الیہ استعمال کی جاتی ہے، یعنی: ہمارے مولیٰ، ہمارے سردار، ہمارے رفیق، وغیرہ۔

نیز آپ ﷺ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ سے فرمایا :«أما أنت يا زيد فأخونا ومولانا»  یعنی اے زید آپ ہمارے بھائی اور مولیٰ ہیں۔

" عن البراء، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لزيد: «أما أنت يا زيد! فأخونا ومولانا». (مصنف ابن أبي شيبة (6 / 393)

کسی عالم دین کے لیے ہمارے ہاں احتراماً ’’مولانا‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے،  ’’مولانا‘‘ ، ’’ملّا‘‘ اور ’’مولوی‘‘ یہ الفاظ بالعموم اسلامی پیشواؤں کے لیے احترام و تعظیم کی غرض سے بولے جاتے تھے اور اب بھی شرفاء  کے ہاں تعظیم کے لیے ہی مستعمل ہیں۔ افغانستان اور آزاد ریاستوں نیز ترکی تک میں ’’دینی عالم‘‘ کو ازراہِ احترام یا علمی فراوانی  کی وجہ سے ’’ملا‘‘ یا ’’منلا‘‘ کہا جاتا تھا، ہمارے ہاں لفظ ’’علامہ‘‘اسی کے مترادف استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح خداترس ماہرِ علم کے لیے فارسی بولنے والے خطوں میں ’’مولوی‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا رہا ہے اور وہیں سے ہمارے ہاں بھی وارد ہوکر عام استعمال میں آچکا ہے، جیسے ’’مولوی معنوی‘‘ ، ’’مولوی عبدالحق‘‘ وغیرہ۔

حضرت مولانا اشر ف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’مولوی اسی کو کہتے ہیں جو مولیٰ والا ہو، یعنی علمِ دین بھی رکھتا ہو اور متقی بھی ہو، خوفِ خدا وغیرہ اخلاقِ حمیدہ رکھتا ہو۔‘‘   ( التبلیغ، ص: ۱۳۳، جلد اول بحوالہ تحفۃ العلماء از مولانا محمد زید، جلد اول، ص:۵۲، البرکۃ کراچی)

نیز لکھتے ہیں:’’مولوی میں نسبت ہے مولی کی طرف، یعنی مولیٰ والا‘‘۔   (ایضاً)

مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ علماءِ کرام کے لیے مولانا کا لفظ استعمال کرنا شرعاً جائز ہے،اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ نیز درود شریف میں یا ویسے بھی رسول اللہ ﷺ کا اسمِ گرامی لیتے وقت آپ ﷺ کے نام کے ساتھ بطورِ ادب وعقیدت ’’سید‘‘ اور ’’مولیٰ‘‘ کا لفظ استعمال کرنا بلاشبہ جائز ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144102200153

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں