یہاں زمین کو اکثر نہری پانی سے سیراب کیاجاتاہے، لیکن کبھی کبھار بورنگ کا پانی ضرورت پڑنے پر استعمال کیا جاتاہے۔مذکورہ صورت میں دسواں حصہ دیا جاۓگا یا بیسواں؟
دوسرا سوال یہ تھاکے میرےپاس کچھ زمین ایسی ہے جس کا مالک کوئی اور ہے، لیکن پانچ یا دس یا تین سال کےلیےمیں نے ٹھیکے پے لی ہوئی ہے اور زمین کےاصل مالک کو میں پانچ سال کے پیسے ادا کر چکا ہوں یا ہر سال کےپیسے سال کےشروع میں ادا کرتا ہوں۔اور زمین سے ملنے والی ساری آمدن کا میں مالک ہوں تو اس صورت میں عشر کا کیا حکم ہے؟َ
تیسرا سوال یہ تھاکے عشر کا مستحق کون ہے؟ یعنی کس کو دیاجاسکتاہے اور کس کو نہیں دیاجا سکتا؟
1۔سال کا اکثر حصہ چوں کہ نہری پانی سے سیراب کیا جاتا ہے ؛اس لیے مذکورہ زمینوں میں عشر واجب ہوگا۔
العناية شرح الهداية (3/ 168):
"( وَمَا سُقِيَ بِغَرْبٍ أَوْ دَالِيَةٍ أَوْ سَانِيَةٍ فَفِيهِ نِصْفُ الْعُشْرِ عَلَى الْقَوْلَيْنِ )؛ لِأَنَّ الْمُؤْنَةَ تَكْثُرُ فِيهِ وَتَقِلُّ فِيمَا يُسْقَى بِالسَّمَاءِ أَوْ سَيْحًا، وَإِنْ سُقِيَ سَيْحًا وَبِدَالِيَةٍ فَالْمُعْتَبَرُ أَكْثَرُ السَّنَةِ كَمَا مَرَّ فِي السَّائِمَةِ".
2۔مذکورہ زمین کی فصل چوں کہ آپ اٹھاتے ہیں تو عشر بھی آپ ہی کے ذمہ واجب ہے۔
حاشية رد المحتار على الدر المختار (2/ 268):
"(قوله : أو المستأجرة أو المستعارة ) يعني وكانت الأرض عشريةً؛ فإن العشر على المستعير اتفاقاً، وعلى المستأجر على قولهما المأخوذ به".
3۔ عشر کے مستحق وہی ہیں جو زکاۃ کے ہیںِ۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144003200249
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن