بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عرب کو تین وجوہ کی بنا پر برا نہ کہو، کیا یہ حدیث ہے؟


سوال

کچھ لوگوں سے یہ سنا ہے کہ ایک روایت ہے:’’ عرب کو تین وجوہات کی بنا پر برانہ کہو ۔  1۔ قرآن عربی میں ہے ۔ 2۔ میں عربی ہوں ۔ 3۔ جنت کی زبان عربی ہے ‘‘۔  کیا یہ روایت صحیح ہے؟

جواب

سوال میں ذکر کردہ الفاظ کے ساتھ یہ روایت کتبِ حدیث میں نہیں مل سکی، تاہم حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک مرفوع روایت ملتی ہے : عرب سے تین وجوہات کی بنا پر محبت کرو، کیوں کہ میں عربی ہوں، اور قرآن عربی میں ہے، اور اہلِ جنت کی زبان عربی ہوگی۔

تاہم مذکورہ روایت کو بعض محدثین نے موضوع و من گھڑت قرار دیا ہے، بعض نے انتہائی ضعیف، اور بعض نے منکر قرار دیا ہے۔

"عن ابن عباس رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "أحبوا العرب لثلاث: لأني عربي، والقرآن عربي، وكلام أهل الجنة عربي".

لسان الميزان میں ہے: "منكر ضعيف المتن، لا أصل له". ( ٤ / ٤٦٧)

الضعفاء الكبيرمیں ہے: "منكر لا أصل له". (٣ /٣٤٩)

المعجم الأوسط للطبرانيمیں ہے: "لم يرو هذا الحديث عن ابن جريج إلا يحيى بن بريد تفرد به العلاء بن عمرو". ( ٥ / ٣٦٩)

شعب الإيمان للبيهقيمیں ہے: "تفرد به العلاء بن عمرو". ( ٢ / ٦٩٩)

موضوعات ابن الجوزي ( ٢ / ٢٩٢)

نسخة نبيط بن شريط الأشجعي ( الذهبي) میں ہے: "[فيه] أحمد بن إسحاق بن إبراهيم بن نبيط بن شريط روى عن أبيه عن جده بنسخة فيها بلايا، لايحل الاحتجاج به؛ فهو كذاب". ( ص: ٥١)

ميزان الاعتدال للذهبيمیں ہے: "موضوع". ( ٣ / ١٠٣)

محجة القرب للعراقيمیں ہے:"ضعيف". ( ص: ٨٩)

مجمع الزوائد للهيثميمیں ہے:   "فيه العلاء بن عمرو الحنفي وهو مجمع على ضعفه‏‏". ( ١٠ / ٥٥)

المقاصد الحسنة للسخاويمیں ہے: "[فيه] ابن يزيد والراوي عنه ضعيفان وله شاهد". ( ص: ٤٢)

النكت على الموضوعات للسيوطيمیں ہے: "ضعيف لا صحيح ولا موضوع". ( ص: ٣٠٦)

الجامع الصغير للسيوطي میں ہے: "صحيح". ( ص: ٢٢٤)

"اقتضاء الصراط المستقيم" میں ہے:   "وكذلك روى أبو جعفر محمد بن عبد الله الحافظ الكوفي المعروف بمطين حدثنا العلاء بن عمرو الحنفي حدثنا يحيى بن زيد الأشعري حدثنا ابن جريج عن عطاء عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"أحب العرب لثلاث: لأنه عربي ، والقرآن عربي ، ولسان أهل الجنة عربي".  قال الحافظ السلفي: هذا حديث حسن . فما أدري أراد حسن إسناده على طريقة المحدثين، أو حسن متنه على الاصطلاح العام، وأبو الفرج بن الجوزي ذكر هذا الحديث في الموضوعات، وقال : قال الثعلبي: لا أصل له، وقال ابن حبان: يحيى بن زيد يروي المقلوبات عن الأثبات، فبطل الاحتجاج به، والله أعلم". (1/158) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201042

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں