کچھ دن پہلے میرے بھائی کا ایک اکتوبر 2019ء کو انتقال ہوگیا تھا، اور اب ان کی بیوہ عدت میں ہیں، ایک مہینہ بعد بھائی کی بیٹی کی شادی ہے، معلوم یہ کرنا ہے کہ میرے بھائی کی بیوہ کی اپنی بیٹی کی شادی میں شرکت کرنے کی کوئی گنجائش ہے، جب کہ شادی ہال میں مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ پردے کا انتظام ہے، لیکن شادی کے وقت تک ان کی عدت مکمل نہیں ہوسکے گی، مہربانی فرماکر شریعت کے مطابق راہ نمائی فرمادیں۔
صورتِ مسئولہ میں آپ کی بھابھی کے لیے اپنے شوہر (آپ کے بھائی)کے انتقال کے دن سے (قمری اعتبار سے) چار مہینے دس دن عدت گزارنا لازم ہے، اور اس دوران ان کے لیے شدید ضرورت کے بغیر گھر سے نکلنا، زیب وزینت، بناؤسنگھار کرنا، خوش بو لگانا، اور نئے کپڑے وغیرہ پہننا جائز نہیں ہے۔
باقی والد کے انتقال کے ایک مہینہ بعد بیٹی کی شادی کرنا منع نہیں ہے، اور گھر کے اندر ہی بغیر بناؤ سنگھار کے والدہ بھی اس میں شریک ہوسکتی ہیں، لیکن اس مقصد کے لیے عدت کے دوران شادی ہال میں جانا شرعاً جائز نہیں ہے، اس لیے رخصتی کی تقریب سادگی سے گھر ہی میں کردی جائے اور اس میں والدہ بھی شرکت کرلیں، جب کہ سادگی کے ساتھ کیے ہوئے نکاح میں برکت بھی ہوتی ہے۔
البحر الرائق میں ہے :
"وجب في الموت إظهاراً للتأسف علی فوات نعمة النکاح؛ فوجب علی المبتوتة إلحاقاً لها بالمتوفی عنها زوجها بالأولی؛ لأن الموت أقطع من الإبانة ... دخل في ترک الزینة الامتشاط بمشط أسنانه ضیقة لا الواسعة، کما في المبسوط، وشمل لبس الحریر بجمیع أنواعه وألوانه ولو أسود، وجمیع أنواع الحلي من ذهب وفضة وجواهر، زاد في التاتارخانیة القصب". (۴/۲۵۳، کتاب الطلاق ، فصل فی الإحداد)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 536):
"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولايخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لاتجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144103200110
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن