بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عدتِ طلاق میں شوہر کا انتقال ہوجائے تو عدت کا حکم


سوال

اگر ایک عورت کو طلاق ہو چکی ہے اور وہ عدت کے ایام میں ہے اور اسی دوران عدت مکمل ہونے سے  15 یا 20 دن پہلے ہی جس شوہر  کی طلاق عدت میں ہو اور انتقال کرجاۓ تو  کیا وہ مطلقہ عورت اپنی طلاق کی عدت مکمل کر کے دوسری طرف نکاح کر سکتی ہے یا اس کی عدت دوبارہ سے شروع ہو جاۓ گی؟ اور اگر دوبارہ شروع ہو جاۓ گی تو اس عدت کے دوران کیا وہ عورت صرف نکاح کر سکتی ہے؟  شوہر نے 3 طلاقیں دے دی تھیں اور بیوی تکمیلِ عدت کے قریب تھی (یعنی 10 سے 15 دن باقی تھے عدت مکمل ہونے میں) اس وقت شوہر کو ڈاکٹرز کی جانب سے جواب ہو چکا تھا اور وہ قریب الموت تھا  جب طلاق دی تھی،  اور بعد از طلاق اچانک انتقال ہو گیا۔

جواب

بصورتِ مسئولہ میں اگر عورت کی رضامندی کے بغیر مرض الموت میں تین طلاقیں دی تھیں اور پھر عدت کے مکمل ہونے سے پہلے شوہر کاانتقال ہوگیا تو اس عورت پر ابعد الاجلین (طلاق اور وفات کی عدت میں جو طویل ہو وہ ) گزارنا لازم ہے ،لہذا اس عورت کے اگر ماہواری کاسلسلہ جاری ہے اور ماہوار ترتیب سے آجاتی ہے (جس کے نتیجے میں تین ماہ واریاں چار ماہ دس دن سے پہلے مکمل ہوجاتی ہوں) تو اب یہ شوہر کی وفات کے بعد سے چار ماہ دس دن کی عدت مکمل کرے گی اور اس دوران نکاح کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

فتح القدیر میں ہے:

"(قوله: وإذا ورثت المطلقة في المرض يتعلق بالمطلقة أي ورثت التي طلقت في المرض بأن طلقها بغير رضاها بحيث صار فارًّا ومات وهي في العدة فعدتها أبعد الأجلين أي الأبعد من اربعة أشهر وعشر وثلاث حيض، فلو تربصت حتى مضت ثلاث حيض ولم تستكمل أربعة أشهر وعشرًا لم تنقض عدتها حتى تستكملها، وإن مضت أربعة أشهر وعشر ولم تمض لها ثلاث حيض بأن امتد طهرها لم تنقض عدتها حتى تمضي وإن مكثت سنين ما لم تدخل سن الإياس؛ فتعتد بالأشهر، إذا عرفت هذا فمن فسّر أبعد الأجلين بأنها تعتد بأربعة أشهر وعشر فيها ثلاث حيض مقصر إذ لايصدق إلا إذا كانت الأربعة أشهر وعشر أبعد من الثلاث حيض، وحقيقة الحال أنه لا بد من أن تتربص آخر الأجلين، وهذا الحكم ثابت في صور إحداها هذه، والثانية إذا قال لزوجته أو زوجاته: إحداكن طالق بائن، ومات قبل البيان فعلى كل واحدة الإعتداد بأبعد الأجلين، ولو بين في إحداهما كان ابتداء العدة من وقت البيان، والثالثة أم الولد إذا مات زوجها وسيدها ولم يدر أيهما مات أولا وعلم أن بينهما شهرين وخمسة أيام فصاعدًا، وسنفصلها إن شاء الله تعالى، ثم المراد بذلك الطلاق البائن واحدة أو ثلاثًا أما إذا طلقها رجعيًا فعدتها عدة الوفاة سواء طلقها في مرضه أو في صحته ودخلت في عدة الطلاق، ثم مات الزوج فإنها تنتقل عدتها إلى عدة الوفاة وترث بخلاف ما إذا طلقها بائنًا في صحته، ثم مات لاتنتقل ولاترث بالإتفاق". (315/4 دارالفکر ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200689

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں