بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عباسی و دیگر سادات حضرات کو زکاۃ دینا کیوں درست نہیں ہے؟


سوال

1- ایک عمومی بات جو ہم سنتے ہیں کہ عباسی اور سیدوں کے لیے زکاۃ لینا درست/جائز نہیں. اس بارے میں کوئی مستند حوالہ چاہیے!

 2- مثلاً: میں نے زکاۃ  ادا کرنی ہے اور میں اپنے اردگرد کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو انتہائی ضرورت مند اور نادار ہیں اور عین مدد کے مستحق ہیں، لیکن انہیں زکاۃ  دینے میں یہ امر آڑے آتا ہے کہ وہ عباسی/ سید ہیں. اب جب کہ میرے پاس زکاۃ کی ادائیگی کے بعد زائد رقم نہیں کہ میں انہیں الگ سے دے سکوں۔ کیا یہ شرط درست ہے کہ با خبر ہوتے ہوئے بھی ایک انتہائی ضرورت مند شخص کی میں اس لیے مدد نہ کر سکا کہ وہ عباسی یا سید تھا اور میں نے دور جا کر کسی اور خاندان کے شخص کو زکاۃ ادا کی؟  اس سلسلے میں راہ نمائی فرما دیں!

جواب

1و  2- سید کو زکات دینا اور اس کا زکات لینا جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے زمانے میں بعض سادات کے شدید محتاج ہونے کے باوجود انہیں زکاۃ بھی نہیں دی، بلکہ بتصریح انہیں زکاۃ وصول کرنے سے بھی منع فرمایا، چناں چہ آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے: ’’یہ صدقات  (زکات اور صدقاتِ واجبہ ) لوگوں کے مالوں کا میل کچیل ہیں، ان کے ذریعہ لوگوں کے نفوس اور اَموال پاک ہوتے ہیں اور بلاشبہ یہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے اور آلِ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے حلال نہیں ہے‘‘۔ (صحیح مسلم شریف) یہاں تک کہ آپ ﷺ نے اپنے خاندان کے غلام کے لیے بھی زکاۃ لینا جائز نہیں قرار دیا، فرمایا کہ غلام بھی آقا کی قوم سے شمار ہوتاہے۔

صحیح مسلم کی دوسری روایت میں ہے کہ یزید بن حیان کہتے ہیں کہ میں اور حصین بن سبرہ اور عمر بن مسلم (ہم تینوں) حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہما کے پاس گئے،  ۔۔۔ پھر انہوں (زید بن ارقم) نے فرمایا: ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ’’غدیرِ خم‘‘ جو مکہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ہے کے مقام پر ہمیں خطبہ دیا، چناں چہ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی اور وعظ و نصیحت کی، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: امابعد! اے لوگو! آگاہ رہو، میں بھی ایک بشر ہوں، قریب ہے کہ میرے رب کا پیامبر (موت کا فرشتہ) میرے پاس آئے اور میں اسے لبیک کہوں، لہٰذا میں تمہارے درمیان دو بھاری چیزیں چھوڑ رہاہوں، پہلی چیز اللہ کی کتاب ہے، اس میں ہدایت اور نور ہے، سو اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے تھام لو، پھر آپ ﷺ نے کتاب اللہ کے اتباع پر لوگوں کو آمادہ کیا اور خوب ترغیب دی، پھر فرمایا: اور (دوسری چیز) میرے اہلِ بیت، میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنے کی نصیحت کرتاہوں،  میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنے کی نصیحت کرتاہوں، میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنے کی نصیحت کرتاہوں۔ یزید بن حیان کہتے ہیں: حصین نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے کہا: اے زید! رسول اللہ ﷺ کے اہلِ بیت کون ہیں؟ کیا آپ کی ازواجِ مطہرات اہلِ بیت میں سے نہیں ہیں؟ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن اہلِ بیت میں سے ہیں، لیکن (یہاں) اہلِ بیت وہ ہیں جن کے لیے صدقہ لینا حرام کردیا گیا ہے۔ حصین نے پوچھا: وہ کون ہیں (جن پر صدقہ لینا حرام ہے)؟ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ علی (رضی اللہ عنہ) کی اولاد ہیں، عقیل (رضی اللہ عنہ) کی اولاد ہیں، جعفر (رضی اللہ عنہ) کی اولاد ہیں، عباس (رضی اللہ عنہ) کی اولاد ہیں۔ حصین نے کہا: کیا ان سب پر صدقہ حرام ہے؟ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جی ہاں!‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، 2/279۔ ط: قدیمی)

لہٰذا اگر سید غریب اور محتاج ہے تو صاحبِ حیثیت مال داروں پر لازم ہے کہ وہ سادات کی اِمداد زکات اور صدقاتِ واجبہ کے علاوہ رقم سے کریں اور ان کو مصیبت اور تکلیف سے نجات دلائیں  اور یہ بڑا اجروثواب کا کام ہے اور حضور اکرم ﷺ کے ساتھ محبت کی دلیل ہے۔ اور ان شاء اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کی شفاعت کی قوی امید کی جاسکتی ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا قول منقول ہے:  "ارقبوا محمداً في أهل بيته". یعنی رسولِ اقدس ﷺ کے اہلِ بیت کا لحاظ وخیال کرکے نبی کریم ﷺ کے حق کی حفاظت کرو۔

لہٰذا اگر آپ کے بس میں ہو تو زکاۃ  کے علاوہ دیگر نفلی عطیات اور ہدایا کی رقم سے مستحق سادات حضرات کی مدد کریں، لیکن اگر آپ کے پاس زکاۃ  کے علاوہ رقم نہ ہو تو پھر آپ شرعاً معذور ہوں گے، اس لیے کہ زکاۃ  کی رقم عباسی و دیگر سادات حضرات کو دینے سے خود صاحبِ شریعت، نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ البتہ آپ اہل ثروت (ما لدار) حضرات کو عطیات اور ہدایا کی رقم سے  ایسے ضرورت مند سادات حضرات کی مدد کرنے کی ترغیب دے سکتے ہیں۔

صحيح مسلم (2/ 754):
"«إن هذه الصدقات إنما هي أوساخ الناس، وإنها لاتحل لمحمد، ولا لآل محمد»".

البحر الرائق شرح كنز الدقائق  (2/ 265):

" (قوله: وبني هاشم ومواليهم) أي لايجوز الدفع لهم ؛ لحديث البخاري: «نحن - أهل بيت - لاتحل لنا الصدقة»، ولحديث أبي داود: «مولى القوم من أنفسهم، وإنا لاتحل لنا الصدقة»". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201695

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں