مجھے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بتائیں کہ کیا طوطے کا کاروبار کرنا صحیح ہے؟
پرندے رکھنا اور ان کو پالنا کچھ شرائط کے ساتھ جائز ہے، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے بھائی ابو عمیر نے ایک چڑیا پال رکھی تھی، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب تشریف لاتے تو پوچھتے تھے:
"يَا أَبَا عُمَيْرٍ مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ! نُغَرٌ کَانَ يَلْعَبُ بِه".
’’اے ابو عمیر! نغیر (پرندہ) کا کیا کیا؟ وہ بچہ اس پرندہ سے کھیلتا تھا‘‘۔
مذکورہ بالا روایت سے معلوم ہواکہ حضرت انس کے گھر میں ان کے بھائی نے ایک پرندہ پال رکھا تھا، حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بارے میں دریافت فرماتے، مگر آپ ﷺ نے اسے رکھنے سے منع نہیں کیا، معلوم ہوا کہ پرندوں کو گھر میں پالنے کی اجازت ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
"إن في الحديث دلالةً على جواز إمساك الطير في القفص ونحوه، ويجب على من حبس حيواناً من الحيوانات أن يحسن إليه ويطعمه ما يحتاجه لقول النبي صلى الله عليه وسلم".
ترجمہ: اس حدیث سے پرندے کو پنجرے وغیرہ میں بند کرنے کے جواز کی دلیل ملتی ہے، پرندے کو رکھنے والے پر واجب ہے کہ وہ اس کے کھانے وغیرہ کا خصوصی اہتمام کرے۔
(عسقلاني، فتح الباري، 10: 584، دار المعرفة بيروت)
لیکن اس کے ساتھ ضروری شرط یہ ہے کہ ان جانوروں کےحقوق کا خیال رکھا جائے اور ان کی حق تلفی نہ کی جائے، کیوں کہ ان کو خوراک مہیا نہ کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"دخلت امرأة النار في هرة ربطتها فلم تطعمها ولم تدعها تأكل من خشاش الأرض".
ترجمہ: ایک عورت صرف اس لیے جہنم میں چلی گئی کہ اس نے ایک بلی باندھ رکھی تھی، لیکن اسے نہ تو کھانا کھلایا اور نہ ہی اسے زمین میں کھلا چھوڑ دیا کہ وہ حشرات الارض سے پیٹ بھر لے۔
(بخاري، الصحيح، كتاب بدء الخلق، رقم: 2)
لہٰذا طوطے کو پالنے اور ان کا کاروبار کرنے کے لیے چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:
فتوی نمبر : 144012201837
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن