بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

طواف سات بار کیوں کیا جاتا ہے؟


سوال

 طواف سات بار کیوں کیا جاتا ہے؟

جواب

پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ طواف سات بار نہیں ہوتا, بلکہ ایک طواف میں سات چکر ہوتے ہیں۔ طواف کے سات چکر ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے جب امت کو حج کا طریقہ سکھایا اور عملی طور پر اس کو کرکے دکھایا تو  طواف میں سات چکر لگائے، اور شرعی اَحکام  پر عمل کرنے کے لیے اصل یہی ہے کہ یہ اللہ اور رسول ﷺ کا بتایا ہوا طریقہ ہے۔

علامہ زرقانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: طاق عدد کو واحد، صمد اور اکیلی ذات کی یاد دلانے میں  بڑا  اثر ہے اور خود سات کے عدد کا بھی شریعت کے بہت سے احکام میں بڑا دخل ہے،  اس لیے بہت سی چیزوں میں طاق عدد بالخصوص سات کی رعایت کی گئی ہے، علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے قدرے تفصیل سے سات کے عدد کی خاصیت پر بحث کی ہے کہ اس کی بڑی وقعت ہے کہ اللہ نے سات آسمان اور سات زمین، سات دن بنائے، اور انسانی تخلیق سات اطوار میں مکمل کی، اپنی عبادت کے لیے طواف کے چکر سات رکھے، صفا اور مروہ کی سعی، رمی جمار ، تکبیراتِ عید، بچوں کی نماز کا حکم دینے کی عمر، وغیرہ وغیرہ، اور اس کے علاوہ انہوں نے  یہ بھی تفصیل بیان کی ہے طبی نقطۂ نظر سے بھی سات کے عدد کی بہت اہمیت ہے، بہرحال یہ اللہ کا حکم ہے کہ طواف میں سات چکر لگانے ہیں، اس کی حقیقی حکمت وہی بہتر جاننے والا ہے، ایک مسلمان کے لیے بس اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہے۔

الطب النبوي لابن القيم (ص: 74):
"وَأَمَّا خَاصِّيَّةُ السَّبْعِ، فَإِنَّهَا قَدْ وَقَعَتْ قَدْرًا وَشَرْعًا، فَخَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ السّمَاوَاتِ سَبْعًا، وَالْأَرَضِينَ سَبْعًا، وَالْأَيَّامَ سَبْعًا، وَالْإِنْسَانُ كَمُلَ خَلْقُهُ فِي سَبْعَةِ أَطْوَارٍ، وَشَرَعَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ لِعِبَادِهِ الطَّوَافَ سَبْعًا، وَالسَّعْيَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ سَبْعًا وَرَمْيَ الْجِمَارِ سَبْعًا سَبْعًا، وَتَكْبِيرَاتِ الْعِيدَيْنِ سَبْعًا فِي الْأُولَى وَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «مُرُوهُمْ بِالصَّلَاةِ لِسَبْعٍ» «1» : «وَإِذَا صَارَ لِلْغُلَامِ سَبْعُ سِنِينَ خُيِّرَ بَيْنَ أَبَوَيْهِ» «2» فِي رِوَايَةٍ. وَفِي رِوَايَةٍ أُخْرَى: «أَبُوهُ أَحَقُّ بِهِ مِنْ أُمِّهِ» وَفِي ثَالِثَةٍ «أُمُّهُ أَحَقُّ بِهِ» وَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ أَنْ يُصَبَّ عَلَيْهِ مِنْ سَبْعِ قِرَبٍ «3» ، وَسَخَّرَ اللَّهُ الرِّيحَ عَلَى قَوْمِ عَادٍ سَبْعَ لَيَالٍ، وَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعِينَهُ اللَّهُ عَلَى قَوْمِهِ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ «4» ، وَمَثَّلَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ مَا يُضَاعِفُ بِهِ صَدَقَةَ الْمُتَصَدِّقِ بِحَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ، وَالسَّنَابِلُ الَّتِي رَآهَا صَاحِبُ يُوسُفَ سَبْعًا، وَالسِّنِينَ الَّتِي زَرَعُوهَا دَأَبًا سَبْعًا، وَتُضَاعَفُ الصَّدَقَةُ إِلَى سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ إِلَى أَضْعَافٍ كَثِيرَةٍ، وَيَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ بِغَيْرِ حِسَابٍ سَبْعُونَ أَلْفًا.
فَلَا رَيْبَ أَنَّ لِهَذَا الْعَدَدِ خَاصِّيَّةً لَيْسَتْ لِغَيْرِهِ، وَالسَّبْعَةُ جَمَعَتْ مَعَانِيَ الْعَدَدِ كُلِّهِ وَخَوَاصِّهُ، فَإِنَّ الْعَدَدَ شَفْعٌ وَوَتْرٌ وَالشَّفْعُ أَوَّلٌ وَثَانٍ. وَالْوَتْرُ: كَذَلِكَ، فَهَذِهِ أَرْبَعُ مَرَاتِبَ: شَفْعٌ أَوَّلٌ، وَثَانٍ وَوَتْرٌ أَوَّلٌ وَثَانٍ، وَلَا تَجْتَمِعُ هَذِهِ الْمَرَاتِبُ فِي أَقَلَّ مِنْ سَبْعَةٍ، وَهِيَ عَدَدٌ كَامِلٌ جَامِعٌ لِمَرَاتِبِ الْعَدَدِ الْأَرْبَعَةِ، أَعْنِي الشَّفْعَ وَالْوَتْرَ، وَالْأَوَائِلَ وَالثَّوَانِيَ، وَنَعْنِي بِالْوَتْرِ الْأَوَّلِ الثَّلَاثَةَ، وَبِالثَّانِي الْخَمْسَةَ، وَبِالشَّفْعِ الْأَوَّلِ الِاثْنَيْنِ، وَبِالثَّانِي الْأَرْبَعَةَ، وَلِلْأَطِبَّاءِ اعْتِنَاءٌ عَظِيمٌ بِالسَّبْعَةِ، وَلَا سِيَّمَا فِي البحارين. وقد قال بقراط: كُلُّ شَيْءٍ مِنْ هَذَا الْعَالَمِ، فَهُوَ مُقَدَّرٌ عَلَى سَبْعَةِ أَجْزَاءَ، وَالنُّجُومُ سَبْعَةٌ، وَالْأَيَّامُ سَبْعَةٌ، وَأَسْنَانُ النَّاسِ سَبْعَةٌ، أَوَّلُهَا طِفْلٌ إِلَى سَبْعٍ، ثُمَّ صَبِيٌّ إِلَى أَرْبَعَ عَشْرَةَ، ثُمَّ مُرَاهِقٌ، ثُمَّ شَابٌّ، ثُمَّ كَهْلٌ، ثُمَّ شَيْخٌ، ثُمَّ هَرَمٌ إِلَى مُنْتَهَى الْعُمُرِ، وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ بِحِكْمَتِهِ وَشَرْعِهِ، وَقَدْرِهِ فِي تَخْصِيصِ هَذَا الْعَدَدِ هَلْ هُوَ لِهَذَا الْمَعْنَى أَوْ لِغَيْرِهِ؟"

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 147):
"وإذا افتتح الطواف يأخذ عن يمينه مما يلي الباب فيطوف بالبيت سبعة أشواط يرمل في الثلاثة الأول، ويمشي على هيئته في الأربعة الباقية، والأصل فيه ما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أنه استلم الحجر ثم أخذ عن يمينه مما يلي الباب فطاف بالبيت سبعة أشواط»".

شرح الزرقاني على الموطأ (1/ 619):
"قال بعض العلماء: حكمة هذا العدد أنه لما كان للوترية أثر عظيم في التذكير بالوتر الصمد الواحد الأحد، وكان للسبعة منها مدخل عظيم في الشرع جعل تكبير صلاة العيد وترًا وجعل سبعًا في الأولى لذلك، وتذكيرًا بأعمال الحج السبعة من الطواف والسعي والجمار تشويقًا إليها؛ لأن النظر إلى العيد الأكبر أكثر، وتذكيرًا بخالق هذا الوجود بالتفكر في أفعاله المعروفة من خلق السماوات السبع والأرضين السبع وما فيها من الأيام السبع؛ لأنه خلقهما في ستة أيام وخلق آدم في السابع يوم الجمعة".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200300

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں