بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

طواف اور سعی الیکٹرانک گاڑی پر کرنے کا حکم


سوال

آج کل مسجد الحرام میں طواف اور سعی کے لیے الیکٹرانک گاڑی چل رہی ہے,  کیا اگر کسی جوان نے طوافِ  زیارت کے لیے وہ گاڑی لی اور سعی بھی اس گاڑی پر کی جب کہ اس نے طواف اور سعی کے 3 چکر پیدل مکمل کیے ہیں تو اس کے طوافِ  زیارت کا کیا حکم ہے، جب کہ اس گاڑی پر جوان بھی طواف و سعی کر رہے ہوتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ صحت مند شخص کے لیے طواف میں پیدل چلنا واجب ہے، اگر کوئی شخص بغیر کسی عذر کے  پیدل چلنے کو ترک کر کے کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرتا ہے, مثلاً وہیل چیئر پر طواف کرتا ہے تو اس شخص پر اس طواف کا اعادہ اور لوٹانا ضروری ہو گا، اگر اعادہ نہیں کرتا تو اس پر دم دینا لازم ہو گا، اسی طرح سعی  میں بھی پیدل چلنا واجب ہے، اگر کوئی شخص بغیر کسی عذر کے وہیل چیئر پر سعی کرے گا تو اس پر بھی دم لازم ہو گا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں چوں کہ مذکورہ شخص نے بغیر کسی عذر کے طواف اور سعی کے اکثر چکر الیکٹرانک گاڑی کے ذریعہ ادا کیے اور پیدل چلنے کو ترک کیا اور ان کا اعادہ بھی نہیں کیا؛  اس لیے اس پر دم واجب ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 468):
" (قوله: والمشي فيه إلخ) فلو تركه بلا عذر أعاده وإلا فعليه دم؛ لأن المشي واجب".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 469):
"(وبداءة السعي بين الصفا والمروة من الصفا) ولو بدأ بالمروة لايعتد بالشوط الأول في الأصح (والمشي فيه) في السعي (لمن ليس له عذر)".

باقی رہا یہ سوال کہ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری پر سوار ہو کر طواف کیا تھا گو ایک ہی مرتبہ کیا ہو؟ اس کا جواب محدثین نے یہ لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا اس لیے کیا تھا؛ تا کہ لوگ آپ علیہ السلام کو دیکھ  کر اپنے سوالات کر سکیں اور مناسکِ حج سیکھ سکیں، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر نہ ہوتے بلکہ پیدل ہوتے تو لوگوں کے لیے آپ علیہ السلام کی طرف آنا اور اپنے سوالات کرنا آسان نہ تھا، چوں کہ رسول اللہ ﷺ شارع تھے، اور اللہ تعالیٰ کے علم میں تھاکہ (ہجرت کے بعد) آپ ﷺ کا یہ پہلا اور آخری حج ہے، اس لیے امت آپ ﷺ سے مسائل اچھی طرح دیکھ کر اور پوچھ کر سیکھ لے، اس لیے نبی کریم ﷺ پر دیگر اہلِ علم اور دیگر زمانوں کو قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ اور بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ اس موقع پر  آپ علیہ السلام کی طبیعت بھی کچھ نا ساز تھی اس وجہ سے سواری پر سوار ہو کر طواف فرمایا۔

شرح مسند أبي حنيفة (1/ 80):
"(وفي رواية قال: طاف النبي صلى الله عليه وسلم) أي سعى (بين الصفا والمروة وهو شاك على راحلة) وهذا بظاهره بيان عذره عليه الصلاة والسلام في عدم مشيه في طوافه وسعيه؛لأنه عدّ من الواجبات عند علمائنا الكرام، لكن أخرج الستة إلا الترمذي، عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع على راحلته يستلم الحجر بمحجنة، لأن يراه الناس وليشرف وليسألوه فإن الناس غشوه، فهذا مانع آخر له عليه الصلاة والسلام من المشي في المشاعر العظام ولا منع من الجمع المعتبر عند الأعلام".

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5/ 1786):
"فإن قلت: فهل يجمع بين ما عن ابن عباس، وعائشة - رضي الله عنها - أنه إنما طاف راكبًا ليشرف، ويراه الناس، فيسألونه، وبين ما عن سعيد بن جبير أنه إنما طاف كذلك؛ لأنه كان يشتكي، كما قال محمد: أخبرنا أبو حنيفة، عن حماد بن أبي سليمان، أنه سعى بين الصفا والمروة مع عكرمة، فجعل حماد يصعد الصفا، وعكرمة لايصعدها، فقال حماد: يا عبدالله، ألا تصعد الصفا والمروة؟ فقال: هكذا كان طواف رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال حماد -رحمه الله-: فلقيت سعيد بن جبير، فذكرت له ذلك، فقال: إنما طاف رسول الله صلى الله عليه وسلم على راحلته، وهو شاك، يستلم الأركان بمحجن، فطاف بين الصفا والمروة على راحلته، فمن أحل ذلك لم يصعد. اهـ.
فالجواب: نعم؛ بأن يحمل ذلك على أنه كان في العمرة، فإن قلت: قد ثبت في مسلم، عن ابن عباس إنما سعى رسول الله صلى الله عليه وسلم ورمل بالبيت؟ ليري المشركين قوته، وهذا لازم أن يكون في العمرة إذ لا مشرك في حجة الوداع بمكة، فالجواب: يحمل كل منهما على عمرة غير الأخرى، والمناسب لحديث ابن عباس كونه في عمرة القضاء؛ لأن الإرادة تفيده، فليكن ذلك الركوب للشكاية في غيرها، وهي عمرة الجعرانة اهـ.
ولا مانع من الجمع بين العلل لركوبه صلى الله عليه وسلم أو نقول: حمل المطلع على الشكاية ركوبه لعذر المرض، وغير المطلع حمله على ما رأى من رأيه، وهذا عندي هو الجواب، والله تعالى أعلم بالصواب". 
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200346

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں