بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے عدد میں شک ہوجائے تو کتنی طلاقیں واقع ہوں گی؟


سوال

10 سال پہلے مجھے کفریہ وسوسے آتے تھے اور وساوس کا انبار لگ جاتا تھا اور میری حالت غیر اختیاری سی ہو جاتی تھی اور بہت تنگ ہوتا تھا اور توبہ بھی کرتا اور اللہ سے معافی بھی مانگتا، میں بہت گناہ گار ہوں اور شیطان مجھے گناہ پر ابھارتا اور مجھ سے گناہ ہو جاتا تھا، غالباً پہلے تو مجھے یاد ہی نہیں رہا، مگر ذہن پر بہت زور دینے کے بعد ایک صبح میں تنگ آکر گناہ اور شیطان کے دوبارہ اکسانے سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیےغصے سے یہ کہہ دیا کہ : ’’اگر میں یہ گناہ پھر کروں تو طلاق ہو جائے ‘‘ دو یا تین نہیں کہا  یہ بھی یاد نہیں۔

پھر 10 سال تک الحمداللہ میں نے وہ گناہ نہیں کیا، مگر پھر مجھ  سے وہ گناہ ہو گیا ہے اور زیادہ بار ہو گیا ہے، پھر مجھے رجوع کرنا بھی یاد نہیں رہا؛ کیوں کہ میں بھول گیا تھا سب جب میں نے توبہ کی تو وسوسہ ہوا کہ طلاق ہوگئی ہے؛ کیوں کہ رجوع نہیں کیا اور شاید تین ماہ گزر گئے،  جب پہلی دفعہ گناہ ہوا تھا، پھر میں نے دو آدمیوں کے سامنے رجوع کیا اور مطمئن ہو گیا، مگر دو چار دن بعد پھر وسوسہ ہوا کہ رجوع کا فائدہ نہیں؛ کیوں کہ شاید تین ماہ گزر چکے تھے، پھر میں ملک گیا اور ایک مولوی صاحب سے دوبار نکاح پڑھایا، پھر دو ماہ اچھے گزرے اور اب پھر وسوسے آتے ہیں کہ تم حلالہ کرو ۔

اب مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اور کیا کیا کہا،  مگر کبھی گمان ہوتا ہے کہ ایک بار کیا تو ایک بار، دو بار کیا تو دو بار اور تین بار کیا تو تین بار،  یا کبھی گمان کہتا ہے تین بار نہیں ایک بار ہو جائے اور کبھی تعداد کی سمجھ نہیں آتی اور کبھی دل کہتا ہے حلالہ کر لو تو سب خیالات ختم ہو جائیں گے اور سکون ہو جائے گا،  مگر پھر خیال اتا ہے کہ کہیں حلالہ کر لو تو طلاق ہوئی ہی نہ ہو تو گناہ ہو جائے گا، اور پھر سوچتا ہوں،  کہیں مجھے سے ساری عمر زنا نہ ہوتا رہے۔اب بہت ڈرتا ہوں سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کروں؟  کتنی طلاقیں ہوئیں؟  کیا وہ گناہ بار بار کرنے سے بار بار طلاق واقع ہوئی اور کیا حلالہ ضروری ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب اس بات میں شک ہے کہ ایک طلاق معلق کی تھی یا دو یا تین اور کسی جانب ترجیح نہیں ہے تو ایسی صورت میں ایک طلاق کا فیصلہ کیا جائے گا اور جب سائل تجدیدِ نکاح کرچکا ہے تو اس کا اپنی بیوی کے ساتھ رہنا شرعاً جائز ہے، اور ایک مرتبہ گناہ سرزد ہونے کے بعد جب دوبارہ گناہ سرزد ہوا، مزید طلاق واقع نہیں ہوئی، کیوں کہ تعلیق کے الفاظ میں ہر ہر مرتبہ گناہ کا ذکر نہیں تھا، لہٰذا وساوس و شکوک کی طرف دھیان نہ دیجیے۔

الاشباہ والنظائر میں ہے:

’’ومنها: شك هل طلق أم لا؟ لم یقع. شك أنه طلق واحدةً أو أکثر؟ بنی علی الأقل، کما ذکر الإسبیجابي‘‘. (الأشباه والنظائر في الفقه الحنفي۶۰،  ۶۴ قاعدة: من شك هل فعل أم لا؟ القاعدة الثالثة)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200229

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں