بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق دیتا ہوں طلاق طلاق


سوال

میرے ساتھ دو بار طلاق کا معاملہ ہوا ہے پہلی بار 2015 سے پہلے جب بیوی سے جھگڑا ہوا تو میں نے اپنی ساس کو بلوایا کہ اپنی بیٹی کو سمجھائیں، مگر جھگڑا اور بڑھ گیا جس پر میں نے طلاق کی نیت و ارادے کے بغیر شدید غصہ میں  اپنی بیوی کو کہا کہ "اپنی ماں کے گھر چلی جا کچھ دیر بعد طلاق دیتا ہوں"۔

دوسرا واقعہ بھی 2015 میں پیش آیا جس میں میری اپنی ساس سے کسی بات پر بحث ہو رہی تھی، بات کوئی خاص نہیں تھی، مگر  بحث فساد میں بدل گئی ،اور  مجھے بار بار گھر سے نکل جانے کا بولا گیا، بیوی اور ساس کی باتوں سے غصہ سے پاگل ہو گیا تھا اور اس دوران ساس پر ہاتھ بھی اٹھ گیا  اور میں نے اپنی ساس سے بولا کہ تیری بیٹی کو طلاق دیتا ہوں، طلاق طلاق۔

مذکورہ صورت میں کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں 2015 ء میں آپ نے جو الفاظ ادا کیے : " تیری بیٹی کو طلاق دیتا ہوں، طلاق طلاق" ان الفاظ سے آپ کی بیوی پر تین طلاق واقع ہو چکی ہیں، اور وہ آپ پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو چکی ہے، رجوع جائز نہیں ہے اور حلالہ شرعیہ کے بغیر دوبارہ نکاح بھی حرام ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200043

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں