بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صلاۃ الفتح کب اور کہاں پڑھی گئی؟


سوال

’’صلاۃ الفتح‘‘ کیا ہے؟  اور حضور   صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’صلاۃ الفتح‘‘ کب اور کہاں پڑھی؟

جواب

’’صلاۃ الفتح‘‘ سے مراد وہ نماز ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتحِ مکہ کے دن شکرانہ کے طور پر  نماز پڑھی تھی۔

فتح مکہ کے موقع  پر  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے اپنی چچازاد بہن حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر داخل ہوئے ،غسل فرمایا اورہلکی قراءت فرماکر آٹھ رکعات  نماز ادا کی، اس نماز  کو ’’صلاۃ الفتح ‘‘ اور ’’صلاۃ الشکر‘‘ بھی کہتے ہیں،  اورچوں کہ چاشت کے وقت  ان نوافل کی ادائیگی کی گئی تھی، اس لیے ’’صلاۃ الضحی‘‘ بھی کہتے ہیں، بہرحال اس نماز کی اصل غرض اللہ تعالی  کا شکر ہی ادا کرنا تھا۔اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو جب  بدر کے دن  ابوجہل کی موت  کی خبر   ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے    نمازِ شکر ادا کی۔

بعد ازاں اسلامی فاتحین (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد کے فاتحین) کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے جب  کفار کے خلاف فتح عطا فرماتے تو  مفتوحہ علاقے میں داخل ہوکر اسلامی فاتحین رسول اللہ ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی میں شکرانے کے نوافل ادا کرتے رہے ہیں، شکرانے کے ان نوافل کو ’’صلاۃ الفتح‘‘ کہا جاتاہے۔

سنن الدارمي (1/ 406):

’’حدثنا أبو نعيم ثنا سلمة بن رجاء حدثتنا شعثاء قالت : رأيت بن أبي أوفى صلى ركعتين وقال: صلى رسول الله صلى الله عليه و سلم الضحى ركعتين حين بشر بالفتح أو برأس أبي جهل‘‘.

تفسير ابن كثير ت سلامة (8/ 511):
’’ فالذي فسر به بعض الصحابة من جلساء عمر، رضي الله عنهم أجمعين، من أنه قد أمرنا إذا فتح الله علينا المدائن والحصون أن نحمد الله ونشكره ونسبحه، يعني نصلي ونستغفره، معنى مليح صحيح، وقد ثبت له شاهد من صلاة النبي صلى الله عليه وسلم يوم فتح مكة وقت الضحى ثماني ركعات، فقال قائلون: هي صلاة الضحى. وأجيبوا بأنه لم يكن يواظب عليها، فكيف صلاها ذلك اليوم وقد كان مسافراً لم ينو الإقامة بمكة؟ ولهذا أقام فيها إلى آخر شهر رمضان قريباً من تسعة عشر يوماً يقصر الصلاة ويفطر هو وجميع الجيش، وكانوا نحواً من عشرة آلاف؟ قال هؤلاء: وإنما كانت صلاة الفتح‘‘. 
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200247

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں